غیر رسول کو رسول اللہ بمعنی قاصد کہنا بھی کفر ہے
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید نے چند لوگوں کے سامنے کہا بلکہ اس کی تحریری دستخط بھی بندہ کے پاس موجود ہے کہ مجھے رسول بالمعنیٰ القاصد کہہ سکتے ہیں . اب شریعت ایسے شخص کے بارے میں کیا حکم دیتی ہے . حالانکہ یہ شخص کوئی جاہل بے علم نہیں بلکہ شرح وقایہ، شرح جامی، قطبی وغیرہ پڑھتا ہے ۔ کیا ایسا شخص اس کہنے سے ایمان سے خارج نہ ہوگا؟ اور کافر نہ ہوا؟
گو کہ اس نے اپنے آپ کو رسول بالمعنی المذکور ہی کہا ہے ۔ کیا کسی کو رسول بالمعنی المذکور کہہ سکتے ہیں؟ اگر کہ سکتے ہیں تو پھر لاکھوں کروڑوں رسالت کا دعوی معنی مذکور کر سکتے ہیں ۔ تو پھر ” لا تعد ولا تحصی ” رسول دنیا کے اندر موجود ہو سکتے ہیں ۔ اور کیا زید کی بیوی اس کے نکاح سے خارج ہوگئی اور اس کو دوبارہ عقد و تجدید تجدید اسلام کی ضرورت ہے؟ صاف جواب عنایت فرمائیں اور بادشاہ حقیقی سے اجر عظیم کے مستحق بنیں ۔
بینوا بالکتاب مفصلا توجروا یوم الحساب کثیرا
الجوابـــــــــــــــــــــــــــــــــ
اگر کوئی رسول کو اللہ عزوجل کی طرف مضاف کرکے اپنے کو یا کسی غیر رسول کو رسول اللہ کہے اور کہے میں نے اس سے قاصد و پیامی ہونے کا ارادہ کیا تھا اس کی یہ تاویل مردود ہوگی ہرگز نہ سنی جائے گی ۔ صریح لفظ میں تاویل کا دعوی زنہار مسموع نہیں، ورنہ کوئی کفر کفر نہ رہے اپنے آپ کو خدا کہے اور ارادہ بتائے کہ میں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ میں خود آیا ہوں ۔
خلاصہ و فصول عمادی وجامع الفصولین و فتاویٰ عالمگیریہ وغیرہ کتب معتدہ میں ہے ۔
” واللفظ للعمادیۃ قال : انا رسول اللہ او قال بالفارسیۃ من پیغرم یرید بہ من پیغام می برم یکفر ”
اور لفظ عمادیہ کے ہیں کہ کسی نے کہا کہ میں اللہ کا رسول ہوں. یا فارسی میں کئی من پیغمبرم اور اس سے مراد لیا کہ میں پیغام لے جاتا ہوں تو کافر ہوجائے گا ۔
علماء ایسی تاویل کی نسبت فرماتے ہیں کہ قبول نہیں کیا جائے گا ” لا یقبل ”
نیز فرماتے ہیں
ھو مردود عند القواعد الشریعۃ
قواعد شریعت کی رو سے یہ تاویل مردود ہے
اور فرماتے ہیں ” لا یلتفت لمثلہ ویعد ھذیانا ”
ایسی تاویل کی طرف دھیان نہ دیا جائے گا اور اس کو پاگل پن خیال کیا جائے گا ۔
یوں ہی ہماری زبان میں بے اضافت اگر مثلا یہ کہے کہ میں رسول ہوں یا وہ رسول ہے،
عمادیہ وغیرہ کی عبارت پھر دیکھئے ۔
او قال بالفارسیۃ من پیغرم
یا فارسی میں کہا میں پیغمبر ہوں ۔
ہاں غیر مولی تعالی کی طرف جب اس لفظ کی اضافت ہوتی ہے تو وہاں اس لفظ کے لغوی معنی ہی مراد ہوتے ہیں اور یوں بھی اس کا استعمال شائع ہے ۔
خود احادیث میں بھی موجود ہے، اردو میں بھی اگر کوئی یہ کہے کہ میں فلاں شخص کا رسول ہوں اور قاصد کا ارادہ کرے تو اس میں کوئی محذور نہ ہوگا. اگر شخص مذکور نے اس سے رسول بالمعنی المقاصد کہ سکتے ہیں یہی ارادہ کیا تھا کہ غیر مولی تعالی کی جانب مضاف کر کے جب تو ٹھیک ہے ۔ اسے بھی رسول زید یا عمرو یا بکر وغیرہ اگر کوئی کہے تو مواخذہ نہ ہوگا اور اگر اس کی یہ مراد نہ تھی تو اسے توبہ چاہیے اور تجدید ایمان اور تجدید نکاح بھی ۔
واللہ تعالی اعلم
فتاویٰ مفتی اعظم ہند جلد دوم کتاب العقائد صفحہ ١١