کسی کو علیہ السلام کہنا کیسا ہے | غیر نبی کو علیہ السلام کہنا کیسا ہے

صلوۃ و سلام استقلالا و ابتداء غیر انبیاء و ملائکہ کے سوا کیلئے ممنوع ہے

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسلہ کے متعلق کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو علیہ السلام بولنا کیسا ہے؟ جزاک اللہ خیرا کثیرا ۔ المستفتی:ارمان رضا کشی نگر یوپی

وعلیکم السلام و رحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوہاب۔

       غیر انبیاء و ملائکہ کیلئے ابتداء و استقلالا صلوۃ و سلام جائز نہیں کہ یہ انبیاء اور ملائکہ کے ساتھ خاص ہے جس طرح عز وجل اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہے ہاں اتباعا جائز ہے جیسے اللھم صل وسلم علی سیدنا ومولانا محمد وعلی آل سیدنا و مولانا محمد لہذا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ یا کسی اور غیر نبی و فرشتہ کے ساتھ ابتداء علیہ السلام استعمال نہ کرنا چاہئے ۔

در مختار میں ہے "ﻭﻻ ﻳﺼﻠﻲ ﻋﻠﻰ ﻏﻴﺮ اﻷﻧﺒﻴﺎء ﻭﻻ ﻏﻴﺮ اﻟﻤﻼﺋﻜﺔ ﺇﻻ ﺑﻄﺮﻳﻖ اﻟﺘﺒﻊ”

اس کے تحت ردالمحتار میں ہے "واما اﻟﺴﻼﻡ ﻓﻨﻘﻞ اﻟﻠﻘﺎﻧﻲ ﻓﻲ ﺷﺮﺡ ﺟﻮﻫﺮﺓ اﻟﺘﻮﺣﻴﺪ ﻋﻦ اﻹﻣﺎﻡ اﻟﺠﻮﻳﻨﻲ ﺃﻧﻪ ﻓﻲ ﻣﻌﻨﻰ اﻟﺼﻼﺓ ﻓﻼ ﻳﺴﺘﻌﻤﻞ ﻓﻲ اﻟﻐﺎﺋﺐ ﻭﻻ ﻳﻔﺮﺩ ﺑﻪ ﻏﻴﺮ اﻷﻧﺒﻴﺎء ﻓﻼ ﻳﻘﺎﻝ ﻋﻠﻲ ﻋﻠﻴﻪ اﻟﺴﻼﻡ۔

ﻭاﻟﻈﺎﻫﺮ ﺃﻥ اﻟﻌﻠﺔ ﻓﻲ ﻣﻨﻊ اﻟﺴﻼﻡ ﻣﺎ ﻗﺎﻟﻪ اﻟﻨﻮﻭﻱ ﻓﻲ ﻋﻠﺔ ﻣﻨﻊ اﻟﺼﻼﺓ ﺃﻥ ﺫﻟﻚ ﺷﻌﺎﺭ ﺃﻫﻞ اﻟﺒﺪﻉ ﻭﻷﻥ ﺫﻟﻚ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﻓﻲ ﻟﺴﺎﻥ اﻟﺴﻠﻒ ﺑﺎﻷﻧﺒﻴﺎء ﻋﻠﻴﻬﻢ اﻟﺼﻼﺓ ﻭاﻟﺴﻼﻡ ﻛﻤﺎ ﺃﻥ ﻗﻮﻟﻨﺎ ﻋﺰ ﻭﺟﻞ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﺑﺎﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﻓﻼ ﻳﻘﺎﻝ ﻣﺤﻤﺪ ﻋﺰ ﻭﺟﻞ ﻭﺇﻥ ﻛﺎﻥ ﻋﺰﻳﺰا ﺟﻠﻴﻼ ﺛﻢ ﻗﺎﻝ اﻟﻠﻘﺎﻧﻲ ﻭﻗﺎﻝ اﻟﻘﺎﺿﻲ ﻋﻴﺎﺽ اﻟﺬﻱ ﺫﻫﺐ ﺇﻟﻴﻪ اﻟﻤﺤﻘﻘﻮﻥ ﻭﺃﻣﻴﻞ ﺇﻟﻴﻪ ﻣﺎ ﻗﺎﻟﻪ ﻣﺎﻟﻚ ﻭﺳﻔﻴﺎﻥ ﻭاﺧﺘﺎﺭﻩ ﻏﻴﺮ ﻭاﺣﺪ ﻣﻦ اﻟﻔﻘﻬﺎء ﻭاﻟﻤﺘﻜﻠﻤﻴﻦ ﺃﻧﻪ ﻳﺠﺐ ﺗﺨﺼﻴﺺ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻭﺳﺎﺋﺮ اﻷﻧﺒﻴﺎء ﺑﺎﻟﺼﻼﺓ ﻭاﻟﺘﺴﻠﻴﻢ ﻛﻤﺎ ﻳﺨﺘﺺ اﻟﻠﻪ ﺳﺒﺤﺎﻧﻪ ﻋﻨﺪ ﺫﻛﺮﻩ ﺑﺎﻟﺘﻘﺪﻳﺲ ﻭاﻟﺘﻨﺰﻳﻪ ﻭﻳﺬﻛﺮ ﻣﻦ ﺳﻮاﻫﻢ ﺑﺎﻟﻐﻔﺮاﻥ ﻭاﻟﺮﺿﺎ”ملتقطا(شامی،ج٦،ص٧٥٣،ش)۔

فتاوی رضویہ میں ہے” صلٰوۃ والسلام بالاستقلال انبیاء وملائکہ علیہم الصلٰوۃ والسلام کے سوا کسی کے لئے نہیں، ہاں بہ تبعیت جائز ہے جیسے اللھم صلی وسلم علی سیدنا ومولٰینا محمد وعلی آل سیدنا ومولٰینا محمد”(فتاوی رضویہ،ج٢٣،ص٣٩١) ۔

فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمۃ اسی طرح کے سوال کے جواب میں فرماتے ہیں” امام حسین علیہ السلام کہنا جائز ہے یا نہیں یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے جمھور علماء کا مذھب یہ کہ استقلالا و ابتداء نہیں جائز اوراتباعا جائزہے یعنی امام حسین علیہ السلام کہنا جائزنہیں ہے اور امام حسین علی نبینا و علیہ السلام جائزہے”(فتاوی فیض الرسول،ج١، ص٢٦٧)۔

واللہ تعالی اعلم

کتبہ : مفتی شان محمدالمصباحی القادری

١اکتوبر٢٠٢١

Leave a Reply