فاریکس [forex treding]ٹریڈنگ کی شرعی حیثیت
پہلی نشست:۱۸؍ ربیع النور۱۴۴۰ھ /مطابق ۲۷؍ نومبر ۲۰۱۸ء ـــ منگل، ـــ صبح
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ٭ حَامِدًا و مُصَلِّـيًا و مُسَلِّمًـا ۔
ناتجربہ کار اور غیر ماہر لوگ اس تجارت میں ہاتھ نہ ڈالیں اور جو لوگ اس کے ماہر ہیں اور فائدے کا ظن غالب رکھتے ہیں ان کے لیے شرعاً اجازت ہے ، مگر ہندوستان میں قانوناً ممانعت ہے اس لیے وہ بھی اس سے پرہیز کریں ۔
(۱)دویازیادہ ملکوں کی کرنسیوں کا تبادلہ- جہاں جہاں ان کا رواج ہو جاری ہے ۔ چوں کہ کرنسی مال اور ثمن اصطلاحی ہے اس لیے دو کرنسیوں کا تبادلہ عقد بیع ہے۔ اس پر مبادلۃُ المال بِالمال بالتراضی کی تعریف صادق ہے ۔ اب رہا یہ کہ دو ملکوں کی کرنسیوں کی آن لائن خرید و فروخت کیسا ہے ؟
جواب یہ ہے کہ یہ بھی عقدِ بیع ہے ، کرنسیوں کا تبادلہ جو لوگ کرتے ہیں، ان کے کھاتوں میں ان کی رقوم کا اندراج رہتا ہے . جسے حکماً قبضہ قرار دیا گیا ہے۔ اس طرح یہ دو عاقدوں کے درمیان اپنے اپنے مالِ مقبوض کا تبادلہ ہوتا ہے . پھر ہر ایک کے کھاتے میں زرِ مبادلہ کا اندراج بھی ہو جاتا ہے جو بَدلَین پر قبضہ کے حکم میں ہے. اس لیے اس کے عقد بیع ہونے میں کلام نہیں ۔
ہدایہ میں ہے:ويجوز بيع الفلس بالفلسين بأعيانہما
(الہدايۃ، ج: 3، ص: 63، باب الربوا)
فتاوی رضویہ میں ہے:
و تحقیق ذلک أن بیع النوط بالدراہم کالفلوس بھا لیس بصرف حتی یجب التقابض؛ فإن الصرف بیع ماخلق للثمنیۃ بما خلق لـہاکما فسرہ بہ البحر والدروغیرہما. ومعلوم أن النوط والفلوس لیست کذلک وإنـما عرض لھا الثمنیۃ بالاصطلاح مادامت تروج و إلّا فعروض ۔ وبِعدمِ کونہ صرفا، صرح فی ردالمحتار عن البحر عن الذخیرۃ عن المشایخ في باب الربا ۔
نعم لکونھا أثـمانا بالرواج لابدمن قبض أحد الجانبین و إلاحرم لنھیہ صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم عن بیع الکالئ بالکالئ، والـمسألۃ منصوص علیہا في مبسوط الإمام محمد واعتمدہ في المحیط والحاوی والبزازیۃ والبحر والنھروفتاوی الحانوتي والتنویر والھندیۃ وغیرہا وھو مفاد کلام الإسبیجابی کمانقلہ الشامي عن الزین عنہ .
(الفتاویٰ الرضویۃ ج: ۷، ص: ۱۴۷، الرسالۃ: کفل الفقیہ الفاہم۔ رضا اکیڈمی، ممبئی)
(۲)اس معاملے کی تفصیلات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کرنسیوں کی قیمتیں گھٹتی بڑھتی رہتی ہیں ۔ اکثر لوگوں کو اگر آج کی قیمت معلوم بھی ہوتی ہے تو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ آئندہ چند دنوں یا چند گھنٹوں میں کس کرنسی کی قیمت کم ہوگی ۔ اور کس کی زیادہ ہوگی ۔
اس معاملے میں کامیابی کے لیے بہت کچھ سیکھنے ، تعلیم و تجربہ حاصل کرنے اور امانت دار بروکر (Broker) اور کمپنی کی رہ نمائی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جس سے اکثر لوگ تہی دست ہوتے ہیں اور ناواقفی کی وجہ سے اپنا سرمایہ کھو بیٹھتے ہیں ۔
جیسا کہ اس شعبے کی کتابوں اور رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ۹۰؍ فی صد لوگ اس معاملت سے سخت گھاٹے میں رہتے ہیں ۔ اور جو دس فی صد کامیاب ہوتے ہیں ان کے لیے بھی خسارے کا خطرہ ہوتا ہے اور کبھی کبھی وہ خسارے کا شکار ہوتے بھی ہیں ۔
اس لیے مجلس میں بحث و تمحیص کے بعد طے ہوا کہ ناتجربہ کار اور غیر ماہر لوگ اس تجارت میں ہاتھ نہ ڈالیں ۔ ہاں جو لوگ ماہر ہیں اور فائدے کا ظن غالب رکھتے ہیں وہ یہ تجارت کر سکتے ہیں ۔ شرعًا ان کے لیے جواز ہے، مگر یہاں قانونًا اس تجارت کی ممانعت ہے اس لیے وہ بھی اس سے پرہیز کریں ۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے:
من الصور المباحۃ مایکون جرمافي القانون ففي اقتحامہ تعریض النفس للاذی والاذلال وھو لایجوز فیجب التحرز عن مثلہ وما عداذٰلک مباح سائغ لاحجر فیہ ۔
(الفتاویٰ الرضویۃ، ج:۷، ص:۱۱۵، کتاب البیوع، باب الربا، رضا اکیڈمی، ممبئی) واللہ تعالیٰ اعلم ۔
1 thought on “فاریکس ٹریڈنگ کی شرعی حیثیت Forex traiding ki sharai hasiyat”