بینک میں فکس ڈپوزٹ کروانا کیسا ہے ؟

بینک میں فکس ڈپوزٹ کروانا کیسا ہے ؟

حضرت مفتی صاحب ہمارا یہ سوال ہے کچھ لوگ جو بینک میں ڈبل کرانے کے لیے ایک لاکھ روپیہ دس سال کے لیے فکس کراتے ہیں تو جو یہ دس سال بعد دو لاکھ روپیہ ملے گا تو ایک لاکھ جو یہ ڈبل ملا یہ سود ہے اور سود کے بارے میں تو قرآن و حدیث میں بڑا سخت حکم ہے اس لیے آپ رہنمائی فرمائیں تو یہ فکس کروانا جائز ہے یا نہیں تو اس پر انٹرسٹ گورنمنٹ دیتی ہے اس کا لینا جائز ہے یا نہیں ؟قرآن و حدیث کی روشنی میں کیا حکم ہے آپ رہنمائی فرمائیں۔

المستفتیین:۔ عوام اہل سنت سیڑی چوہانہ ضلع پونچھ بذریعہ مولانا عبد اللہ رضوی

 الجواب بعون الملك الوهاب:۔

ہمارے ملک ہندوستان کے کفار نہ ذمی ہیں اور نہ ہی مستامن،بلکہ فقہ کی زبان میں حربی ہیں ۔ اور یہاں کے بینک بھی انہیں کے ماتحت ہیں مسلمان اور حربی کے درمیان چونکہ سود نہیں ہوتا بشرطے کہ نفع مسلم کو ملے، کیوں کہ اس کا مال معصوم نہیں ہے، اس لیے یہاں غیر مسلموں کے انتظام والے بینکوں میں کچھ سالوں کے لیے جو پیسے فکس کروائے جاتے ہیں یہ جائز ہے پھر اس کے بعد جو زائد رقم ملتی ہے وہ لینا بھی جائز ہے بشرطیکہ سود سمجھ کر نہ لیں اسے اپنے نجی(ذاتی) کاروبار میں بھی لگا سکتے ہیں۔فتح القدیر میں ہے”ولنا قوله عليه الصلاة والسلام(لاربا بين المسلم والحربي في دار الحرب)”ولأن مالهم غير معصوم فباى طريق أخذه المسلم أخذ مالا مباحا مالم يكن غدرا” ہماری دلیل نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد گرامی ہے کہ دار الحرب میں مسلمان اور حربی کے درمیان سود نہیں ہے کیونکہ دار الحرب میں اہل حرب کا مال مباح ہے۔ پس مسلمان اس کو جس طرح بھی حاصل کرے گا وہ مباح ہے مگر شرط یہ ہے کہ اس میں کوئی غدر نہ ہو۔(ج ۷ ص ۳۹/ کتاب البیوع/دار الکتب العلمیه،بیروت،لبنان)
اسی میں ہے: "وقد التزام الاصحاب فی الدرس ان مرادھم من حل الربا والقمار ما اذا حصلت الزیادۃ للمسلم”(حوالہ سابق)
فتاوی رضویہ میں ہے:- "یہاں کے ہندو وغیرہ جتنے کفار ہیں ان میں نہ کوئی ذمی ہے کہ سلطنت اسلام میں مطیع الاسلام وجزیہ گزار ہوکر رہے نہ مستامن ہیں کہ بادشاہ اسلام سے کچھ دنوں کے لئے امان لے کر دار الاسلام میں آئے اور جو کافر نہ ذمی ہو نہ مستامن سوا غدر وبدعہدی کے کہ مطلقا ہر کافر سے حرام ہے باقی اس کی رضا سے اس کا مال جس طرح ملے جس عقد کے نام سے ہو مسلمان کے لیے حلال ہے”(ج ۷ ص ۱۰۵)
فتاوی رضویہ میں ایک اور جگہ ہے” سوال:-کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین دریں باب کہ گورنمنٹ جو قرضہ کا منافع دے رہی ہے اس کا لینا جائز ہے یا نہیں؟ الجواب:- سود کی نیت سے لینا جائز نہیں لاطلاق قوله عزوجل وحرم الربا، چند سطر بعد ہے” اور اسے سود نہ سمجھے بلکہ یہ تصور کرے کہ ایک جائز مال برضائے مالک بلا غدر وبدعہدی ملتا ہے تو وہ بھی روا ہے”(ج ۷ ص ۱۲۳)واللہ تعالی أعلم بالصواب
کتبہ:-محمد ارشاد رضا علیمی غفرلہ خادم دار العلوم رضویہ اشرفیہ ایتی راجوری جموں وکشمیر ۱۷/ربیع الثانی ۱۴۴۶ھ مطابق ۲۱/اکتوبر ۲۰۲۴ء

الجواب صحیح:محمد نظام الدین قادری خادم درس وافتا دار العلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی

1 thought on “بینک میں فکس ڈپوزٹ کروانا کیسا ہے ؟”

Leave a Reply