فقہ حنفی کی جامعیت مفتی محمد اختر حسین قادری علیمی
یہ حقیقت مثلِ خورشید درخشاں آشکارا ہے کہ آج دنیائے اسلام کی اکثریت ائمۂ اربعہ بالخصوص سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مقلد اور پیروکار ہے اور انہیں کے مرتب کردہ فقہی اصولوں پر اعتماد و یقین رکھتی ہے۔ اس تقلید کے تعلق سے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہٗ اللہ تحریر فرماتے ہیں:
’’ان ہذہ المذاہب الاربعۃ المدونۃ المحررۃقد اجتمعت الائمۃ او من یعتقد بہ منہا علی جواز تقلیدہا الی یومنا ہذا و ذلک من المصالح ما لا یخفی لا سیما فی ہذہ الایام التی قصرت فیہا الہمم جدا و اشربت النفوس الہوی و اعجب کل ذی رأی برأیہ‘‘
یعنی یہ چاروں فقہی مذاہب جو اس وقت رائج ہیں ان میں سے کسی ایک کی تقلید پر زمانۂ قدیم سے لے کر آج تک امتِ اسلامیہ کا اتفاق رہا ہے اور اس میں بڑی مصلحتیں ہیں بالخصوص ہمارے اس دور میں تو اس پر عمل کرنا بہت ضروری ہے کیوں کہ آج کل عقلوں میں کوتاہی آچکی ہے اور لوگوں کے دلوں میں خواہشاتِ نفسانیہ بھری ہوئی ہیں اور ہر شخص اپنی عقل اور سمجھ کو سب سے بہتر سمجھتا ہے۔ اس لئے ان مذاہب میں سے کسی ایک کی تقلید ضروری ہے۔
(حجۃ اللہ البالغۃ، ج۱؍۱۵۴)
حضرت شاہ صاحب کی درج بالا عبارت سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ آج اگر کوئی تقلید سے منہ موڑ کر اسے شرک و بدعت سے موسوم کرتا ہے تو وہ ہوائے نفس اور دامِ شیطان کا شکار ہو کر صراطِ مستقیم سے بھٹک گیا ہے۔ چنانچہ اس طرح کی تنبیہ فرماتے ہوئے مصر کے عظیم الشان فقیہ حضرت علامہ سید احمد طحطاوی قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں:
’’ہذہ الطائفۃ الناجیۃ قد اجتمعت الیوم فی مذاہب اربعۃ و ہم الحنفیون و المالکیون و الشافعیون و الحنبلیون رحمہم اللہ تعالیٰ و من کان خارجا عن ہذہ الاربعۃ فی ہذا الزمان فہو من اہل البدعۃ و النار‘‘
یہ نجات والا گروہ اب چار مذاہب میں مجتمع ہے۔ حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی اللہ تعالیٰ ان سب پر رحمت نازل فرمائے۔ اس زمانے میں ان چار سے باہر ہونے والا بدعتی اور جہنمی ہے۔
(حاشیۃ الطحطاوی علی الدر، ج:۴، ص:۱۵۳)
اور محقق علی الاطلاق برکت المصطفی فی الہند حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ فرماتے ہیں
’’نظرِ انصاف میں چاروں مذہبوں کی مثال ایک گھر کے چار دروازوں کی ہے۔ انسان جس دروازے سے داخل ہو گھر تک پہنچ جائے‘‘ (تعارف فقہ و تصوف مترجم ص:۲۹۹)
فقہِ حنفی کی افضلیت
سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور آپ کے اصحاب و اخلاف نے جس تن دہی، جانسوزی، بالغ نظری، ژرف نگاہی، تیقظ و بیدار مغزی اور عرق ریزی سے کتاب و سنت کی روشنی میں اسلامی دستور اور اصول و ضوابط منضبط فرمایا ہے اور کلیات و جزئیات کا استخراج و استنباط کیا ہے و ہ بحمدہٖ تعالیٰ ہر دور کے تمام نوپید مسائل کے حل کے لئے کافی اور عقل و نقل، روایت و درایت کے ہر معیار پر کھرا ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کی انفرادی زندگی سے لے کر اجتماعی و معاشرتی زندگی تک کے تمام شعبوں اور گوشوں کے لئے شمعِ ہدایت اور رہنمائے کامل ہیں، یہی وجہ ہے کہ منکرینِ فقہ کی ہزار ریشہ دوانی اور ہرزہ سرائی کے باوجود فقہِ حنفی کا رخ زیبا آج بھی مانند بدرِ کامل جگمگا رہا ہے اور اپنے اور بیگانے سب اس کی افضلیت و جامعیت اور برتری کا خطبہ پڑھ رہے ہیں۔ حتی کہ معاندین و مخالفین کے بزعمِ خویش معتمد و مستند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں’’عرفنی رسول اللہ ا ان فی المذہب الحنفی طریقۃ انیقۃ ہی اوفق الطریق السنۃ المعروفۃ التی جمعت و نقحت فی زمان البخاری رحمہ اللہ‘‘
مجھے حضور ا نے (بحالتِ کشف) یہ حقیقت بتائی ہے کہ فقہِ حنفی ایک عمدہ راستہ ہے اور امامِ بخاری کے زمانے میں جن احادیث کو جمع کیا گیا اور پھر ان کی تنقیح کی گئی ان حدیثوں سے بہت موافق اور ہم آہنگ ہے۔ (فیوض الحرمین:۴۸، بحوالۂ ازالۂ فریب:۱۲۷)
فقہِ حنفی کی افضلیت کی ایک روشن شہادت یہ بھی ہے کہ بے شمار جلیل القدر اولیائے کرام اور اصحابِ کشف و کرامت اہل اللہ نے اس کی تقلید کی اور شرق و غرب میں اس کی نشر و اشاعت فرمائی۔ ان اساطینِ امت میں حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم،ثقیق بلخی، معروف کرخی، سری سقطی، بایزید بسطامی، فضیل بن عیاض، دائود طائی، خلف بن ایوب، وکیع بن الجراح کوفی، ابوبکر وراق، حاتم اصم، سید محمد شاذلی بکری، خواجہ غریب نواز اجمیری، شرف الدین یحییٰ منیری، سید مخدوم اشرف جہاں گیر سمنانی، خواجہ قطب الدین بختیار کاکی علیہم الرحمۃ و الرضوان قابلِ ذکر ہیں۔
اگر فقہ کے اس عظیم دبستان میں کسی طرح کی کوئی کمی، کوئی سقم، کوئی ضعف اور نقض ہوتا اور اس میں کتاب و سنت سے انحراف کا عنصر شامل ہوتا تو ایسے اولو العزم بندگانِ خدا ہرگز اس کی پیروی نہ کرتے نہ ہی اس کی تبلیغ و اشاعت فرماتے۔
اس سے صاف ظاہر ہے کہ ائمۂ احناف کی کد و کاوش کا یہ حسین ثمرہ اور ان نفوسِ قدسیہ کا مرتب کردہ مجموعۂ فقہ ملتِ اسلامیہ کے لئے لا زوال دستور زندگی اور مکمل ضابطۂ حیات ہے اور اس پر عمل اللہ و رسول کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ آج بہت سے جدت پسند اور مغرب زدہ ذہن و دماغ میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ صدیوں پرانے یہ اصول و قوانین آج کی ترقی یافتہ دنیا کا ساتھ دینے سے قاصر ہیں اور اب یہ پرانے ذخیرے کار آمد نہیں رہ گئے۔ سائنس و ٹکنا لوجی کی حیرت انگیز ترقی سے جو مسائل پیدا ہو رہے ہیں ان کے حل کے لئے اب نئے اصول و کلیات مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اور اس طرح کی بہت سی باتیں، مضامین اور تحریر سننے، دیکھنے اور پڑھنے میں آتی رہی ہیں۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ تجدد پسند اور مغربی علوم و افکار کے دلدادہ حضرات کا یہ پروپگنڈہ صرف اور صرف اسلام دشمنی اور ائمۂ مجتہدین سے عداوت کی بناء پر ہے ورنہ آج تک کوئی ایسا نیا مسئلہ علمائِ حق کے سامنے نہیں آسکا جس کا حل انہوں نے کتاب و سنت اور فقہ و فتاویٰ کے اسی پرانے ذخیرہ سے نہ پیش کر دیا ہو، قارئینِ کرام طمانیت خاطر کے لئے اور مغربی افکار و خیالات سے مرعوب حضرات اپنی تسلی کے لئے اس موضوع پر موجود کتابیں مثلاً فتاویٰ رضویہ، فتاویٰ امجدیہ، فتاویٰ مصطفویہ، فتاویٰ اجملیہ، فتاویٰ فیض الرسول، فتاویٰ فقیہِ ملت اور جدید مسائل کے حوالہ سے منظرِ عام پر آنے والی کتابیں میں اسلام اور جدید بینک کاری، مشینی ذبیحہ، شیئر بازار کے مسائل اور فقیر کی کتاب ’’جدید مسائلِ زکوٰۃ‘‘ کا مطالعہ کریں۔
جد ید مسائل اور فقہِ حنفی کی جامعیت
اب آئیے بطورِ نمونہ کچھ ایسے جدید مسائل ملاحظہ کریں جن سے یہ حقیقت بے غبار ہو جائے گی کہ بلا شبہہ فقہِ حنفی ایسا جامع اسلامی دستور ہے جس میں ہر نئے مسئلہ کا چیلنج قبول کرنے کی صلاحیت و لیاقت ہے اور قرآنی فرمان ’’تبیانا لکل شیء‘‘ کی تفسیر بن کر اسلام کی حقانیت و صداقت کو اجاگر کرنے لئے وہ ہمہ وقت تازہ دم ہے خواہ وہ مسائل معاشیات و اقتصادیات سے متعلق ہوں یا عبادات و طہارات سے یا ماکولات و مشروبات سے، راقم الحروف فقہ کے مختلف ابواب سے متعلق کچھ نئے مسائل درج کرتا ہے۔
(۱) انجیکشن سے وضو ٹوٹنے کا مسئلہ
آج سے ایک صدی قبل نہ تو میڈیکل سائنس کی موجودہ ترقی جیسی ترقی تھی نہ ہی اس زمانہ میں انجیکشن و غیرہ کے ذریعہ خون نکالنے یا چڑھانے کا وجود تھا۔ یہ عصرِ حاضر کی ایجادات سے ہے مگر انجیکشن کے ذریعہ خون نکالنے یا کسی کو لگانے پر خون بر آمد ہوجانے کی صورت میں اس سے وضو ٹوٹے گا کہ نہیں؟ اس طرح کے مسائل کا ذکر فقہِ حنفی کی کتابوں میں صدیوں قبل موجود ملتا ہے جس کی روشنی میں آج پیدا ہونے والے اس مسئلے کا حل علمائے اسلام نے امتِ مسلمہ کے سامنے پیش کر دیا۔ چنانچہ فقہِ حنفی کا عظیم سرمایہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے ۔
’’اذا خرج من الجرح دم قلیل فمسحہ ثم خرج ایضا و مسحہ فان کان الدم بحال لو ترک ما قد مسح منہ فسال انتقض وضوئہ و ان کان لا یسیل لا ینتقض وضوئہ‘‘
یعنی جب زخم سے تھوڑا خون نکلے پھر اسے پونچھ ڈالے پھر دوبارہ خون نکلے اور اسے بھی پونچھ ڈالے تو اگر مجموعی طور پر خون کی مقدار اتنی ہو کہ پونچھا ہوا خون چھوڑ دینے کی صورت میں بہہ جاتا تو وضوٹوٹ جائے گا ورنہ نہیں۔ (فتاویٰ عالمگیری ۱؍۱۱)
اور مندرجہ ذیل جزئیہ تو مکمل طور سے انجیکشن کے مسئلہ پر منطبق ہوتا ہے
’’القراد اذا مص عضو انسان فامتلأ دما ان کان صغیرا لا ینتقض وضوئہ کما مصت الذباب و البعوض و ان کان کبیرا ینقض‘‘اھ
چیچڑی جب کسی آدمی کا خون چوس لے پھر وہ خون سے بھر جائے تو اگر وہ چھوٹی ہو تو وضو نہیں ٹوٹے گا جیسے مچھر، مکھی وغیرہ کے چوسنے سے وضو نہیں ٹوٹتا اور اگر بڑی ہو تو ٹوٹ جائے گا۔ (بحوالہ سابق)
ان عبارتوں سے یہ مسئلہ بالکل صاف ہو جاتا ہے کہ اگر انجیکشن کے ذریعہ اتنی مقدار میں خون نکالا جائے یا انجیکشن لگاتے وقت اتنا خون نکل جائے کہ اتنی مقدار خون بہہ سکتا تھا تو وضو ٹوٹ جائے گا ورنہ نہیں۔
(۲) پٹرول سے کپڑے کی دھلائی
پٹرول آج انسانی زندگی کے شعبوں میں بیحد دخیل ہو گیا ہے، تمام تجارتی و صنعتی کاروبار اس سے متعلق ہیں، آمد و رفت اور سفر کا سارا ہنگامہ اسی کی دین ہے۔ اس کے بے شمار منافع اور فوائد میں سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس وقت اس کو کپڑوں کی دھلائی اور صفائی کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے جب کہ ماضی بعید میں اس کا کوئی تصور بھی نہیں تھا مگر آئیے دیکھیں کیا فقہِ حنفی اس سلسلہ میں ہماری کوئی رہنمائی کرتی ہے اور پٹرول کے ذریعہ دھلائی کے لئے کوئی ایسا ضابطہ پیش کرتی ہے جس کی رُو سے طہارت و عدمِ طہارت کا حکم واضح ہو سکے۔
طہارت کے سلسلہ میں اصول یہ ہے کہ نجاست دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک تو وہ غیر محسوس و مبصر ناپاکی ہے جسے ہم نہ دیکھ سکتے ہیں نہ محسوس کر سکتے ہیں لیکن چوں کہ شریعت اس کو ناپاکی قرار دیتی ہے اس لئے ہم ناپاک باور کرتے ہیں مثلا نواقضِ وضو و غسل پیش آجانے کی وجہ سے کچھ یا کل جسم کا ناپاک ہوجانا اس کو نجاستِ حکمی اور حدث و جنابت بھی کہا جاتا ہے ایسی ناپاکی کو دور کرنے کے لئے پانی کا استعمال یا تیمم ضروری ہے۔ پانی کے بجائے اگر کوئی دوسری سیال چیز مثلا پھلوں کے رس وغیرہ کا استعمال کیا جائے تو کافی نہ ہوگا۔
دوسری قسم کی نجاستیں وہ ہیں جو محسوس کی جا سکتی ہیں مثلا پیشاب، پاخانہ وغیرہ ان کے ازالہ کے لئے ہر پاک سیال(بہنے والی) چیز جو نجاست کو دور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو کافی ہے۔ و یجوز تطہیرہا بالماء و بکل مائع طاہر یمکن ازالتہا بہ کالخل و ماء الورد (الہدایہ: ج:۱، ص:۵۴، باب الانجاس)
اس اصول سے یہ بات واضح ہو گئی کہ پٹرول سے غسل یا وضو تو ہرگز درست نہیں لیکن کپڑے وغیرہ کا دھونا یا کسی بھی محسوس و مبصر نجاست کا اس کے ذریعہ ازالہ درست ہوگا اس لئے کہ اس کے لئے پانی ضروری نہیں ہر بہتی ہوئی پاک چیز کافی ہے۔
(۳)ٹیپ ریکارڈ اور ریڈیو کی قراء ت پر سجدہ
قدیم زمانے میں ٹیپ ریکارڈ اور ریڈیو وغیرہ کا وجود نہیں تھا اس لئے اس پر سنی گئی خبروں کے تعلق سے کوئی حکم کتبِ فقہ میں موجود نہیں۔ یوں ہی ان آلات کے ذریعہ سنی گئی تلاوت قرآن کا بھی کوئی حکم مذکور نہیں۔ مگر ان آلات کی ایجاد سے آج یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر کوئی ٹیپ ریکارڈ یا ریڈیو کے ذریعہ آیتِ سجدہ سنے تو کیا اس پر سجدۂ تلاوت واجب ہے؟ کیوں کہ فقہائے کرام نے جس طرح آیتِ سجدہ تلاوت کرنے پر سجدۂ تلاوت کو واجب قرار دیا ہے سننے والے پر بھی واجب بتایا ہے۔
آپ دیکھیں یہ مسئلہ فقہ کے پرانے ذخیرہ میں موجود نہیں مگر اس طرح کے پیش آنے والے مسائل کی نظیر ان ذخیروں میں ضرور ہے جس کی مدد سے اس کا حکم بھی واضح ہو جاتا ہے چنانچہ کتبِ فقہ میں یہ مسئلہ لکھا ہوا ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی پرندے کو آیتِ سجدہ سکھا دی پھر اس پرندے نے آیتِ سجدہ کی آواز پیدا کی تو پرندے سے پیدا ہونے والی اس آواز کو سننے سے سجدۂ تلاوت واجب نہیں ہے اسی طرح گنبد اور کنویں وغیرہ کی گونج سے سنی جانے والی آواز (صدائے بازگشت) سے بھی سجدۂ تلاوت واجب نہیں ہوتا ہے۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے ’’و لا تجب اذا سمعہا من طیر ہو المختار و ان سمعہا من الصدی لا تجب علیہ کذا فی الخلاصۃ‘‘ یعنی اگر پرندے سے آیتِ سجدہ سنی تو قول مختار کے مطابق سجدہ واجب نہیں اور اگر صدائے بازگشت سے سنی تب بھی واجب نہیں۔ (ج:۱، ص:۶۸)
آپ مذکورہ بالا دونوں مسئلوں میں غور فرمائیں تو ریڈیو اور ٹیپ سے سنی گئی آیتِ سجدہ کا حکم خود ہی سمجھ میں آ جائے گا کہ طوطا کی آواز یا صدائے باز گشت چوں کہ متکلم کی اصلی آواز نہیں بلکہ اس کی آواز کا عکس اور نقل ہے جو ایک غیر ذی شعور اور ایک غیر جاندار چیز کے ذریعہ انسانی کانوں تک پہونچی ہے اس لئے وہ تلاوت نہیں کہ جس سے سجدہ واجب ہو ٹھیک اسی طرح ٹیپ اور ریڈیو کی آواز متکلم کی اصل آواز نہیں بلکہ مثل صدائے باز گشت اور اصل آواز کا عکس ہے تو اس سے سنی گئی آیت سجدہ پر بھی سجدہ واجب نہیں ہے ۔
غرضیکہ اس طرح کی سیکڑوں صورتیں ہیںجن کا وجود عہدِ ماضی میں نہیں تھا بلکہ وہ عصرِ حاضر کی ایجادات سے ہیں مگر ان کے احکام کسی نہ کسی شکل میں فقہائے کرام کے گنج گرانمایہ میں دستیاب ہیں جس کی بناء پر ہم بڑے وثوق و اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ فقہ کے ان اصول و ضوابط اور کلیات و جزئیات میں قیامت تک پیدا ہونے والے تمام مسائل کا حل موجود ہے اور آج بھی ان کی افادیت اور اہمیت کی پیشانی ذرہ برابر شکن آلود نہیں ہے اور نہ آئندہ ہوگی۔
اس حقیقت کا ذکر کرتے ہوئے سیدی اعلیحضرت امام احمد رضا حنفی قادری بریلوی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں
’’اے عزیز! اس زمانۂ پرفتن میں لوگوں کو احکامِ شرع پر سخت جرأت ہے خصوصاً ان مسائل میں جنہیں حوادث جدیدہ سے تعلق و نسبت ہے۔ جیسے تار برقی وغیرہ۔ سمجھتے ہیں کہ کتبِ ائمۂ دین میں ان کا حکم نہ نکلے گا جو مخالفت شرع کا ہم پر الزام چلے گا مگر نہ جانا علمائے دین شکر اللہ تعالیٰ مساعیہم الجمیلہ نے کوئی حرف ان عزیزوں کے اجتہاد کو اٹھا نہیں رکھا ہے۔ تصریحا، تلویحا، تفریعا، تاکیدا سب کچھ فرمادیا ہے۔ زیادہ علم اسے ہے جسے زیادہ فہم ہے اور ان شاء اللہ العزیز زمانہ ان بندگانِ خدا سے خالی نہ ہوگا جو مشکل کی تسہیل، معضل کی تحصیل، صعب کی تذلیل، مجمل کی تفصیل سے ماہر ہوں۔ بحر سے صدف، صدف سے گہر، بذر سے درخت، درخت سے ثمر نکالنے پر باذن اللہ تعالیٰ قادر ہوں‘‘ (فتاویٰ رضویہ ۴؍۵۲۶)