فرض اعتقادی و عملی اور واجب اعتقادی و عملی کی وضاحت
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
عنوان : فرض عملی، فرضی اعتقادی، واجب عملی اور واجب اعتقادی کی وضاحت تفصیل کے ساتھ فرماکر شکریہ کا موقع دیں۔
سائل:محمدرفیق اُویسی کشمیری
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوہاب۔
فرض اعتقادی وہ ہے جو ایسی دلیل قطعی سے ثابت ہو جس میں کوئی شبہہ نہ ہو۔
فرض عملی وہ ہے جس کا ثبوت تو ایسا قطعی نہ ہو مگر نظر مجتہد میں بحکم دلائل شرعیہ جزم ہے کہ بے اس کے کیے آدمی بری الذمہ نہ ہوگا۔
واجب اعتقادی وہ کہ دلیلِ ظنی سے اس کی ضرورت ثابت ہو۔
واجب عملی وہ ہے واجبِ اعتقادی کہ بے اس کے کیے بھی بری الذمہ ہونے کا احتمال ہو مگر غالب ظن اس کی ضرورت پر ہے۔
فتاوی رضویہ میں ہے "مجتہد جس شے کی طلب جزمی حتمی اذعان کرے اگر وہ اذعان بدرجہ یقین معتبر فی اصول الدین ہو (اور اس تقدیر پر مسئلہ نہ ہوگا مگر مجمع علیہ ائمہ دین) تو وہ فرض اعتقادی ہے جس کا منکر عند الفقہاء مطلقا کافر اور متکلمین کے نزدیک (منکر اس وقت کافر ہے) جبکہ مسئلہ ضروریات دین سے ہو اور یہی عند المحقیقن احوط و اسدّ۔
اقول: اذعان درج ذیل چیزوں کو شامل ہے (۱)ظنِ غالب اور راجح رائے جو فقہی مسائل کے اندر یقین میں شامل ہے (۲) یقین بمعنی اعم (۳) یقین بمعنی اخص۔ یہ دونوں باب عقائد میں معتبر ہوتے ہیں۔
جب ہمیں کسی بات کا اذعان حاصل ہو تو اگر اس کے خلاف کا بالکل احتمال نہ ہو جیسے اللہ تعالی کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت تو یہ یقین بمعنی اخص ہے اور اگر احتمال ہو مگر ایسا احتمال جو بغیر کسی دلیل کے پیدا ہوا ہو تو یہ یقین بمعنی اعم ہے جیسے وہ جسے ہم زید یقین کر رہے ہیں اس کے بارے میں یہ احتمال ہو سکتا ہے یہ کوئی جن ہو جس نے زید کی شکل اختیار کر لی ہے ایسا احتمال ذرا بھی قابل لحاظ نہیں ہوتا نہ ہی یہ علم کو درجہ یقین سے نیچے لا سکتا مگر جو احتمال کسی دلیل سے پیدا ہوا ہو وہ یقین کو ظن بنا دیتا ہے اور یہ تینوں ہی اذعان کے تحت داخل ہیں لان مافیہ خلاف ولو مرجوحا لا یصل الٰی درجۃ ھذا الیقین اس لئے کہ جس میں ائمہ دین کا اختلاف ہے اگرچہ خلافِ مرجوح ہی ہو وہ اس یقین کے درجہ تک نہیں پہنچ سکتا۔(ت)
میں کہتا ہوں:لفظ اعتقاد اصل وضع کے اعتبار سے اگرچہ اذعان کا مساوی ہے مگر یہاں اس سے مراد علم بمعنی اخص ہے جو یقین بمعنی اعم و یقین بمعنی اخص ہے اس اصطلاح کے تحت علماء کا یہ ارشاد آتا ہے کہ باب ”اعتقاد ” میں خبر آحاد مفید اعتماد نہیں۔(ت)
یعنی فقہائے متاخّرین میں سے اکثر مصنفین اصحاب فتاوٰی و غیرہم کے نزدیک(وہ مطلقا کافر ہے)اور ہمارے ائمہ متقدمین کا مسلک وہی ہے جس پر متکلمین ہیں جیسا کہ خاتم المحققین ہمارے والد ماجد قدس سرہ نے اپنے بعض فتاوٰی میں اس کی تحقیق فرمائی ہے(ت)۔
اور ہمارے اساتذہ کرام کا معول و معتمد ہے ورنہ (یعنی اگر اس مسئلہ پر تمام ائمہ کا اتفاق نہیں ہے تو واجب اعتقادی ہے۔
ضروریات دین کی تفسیر یہ کی گئی ہے کہ وہ دینی مسائل جن کو عوام و خواص سب جانتے ہوں اقول عوام سے مراد وہ لوگ ہیں جو دینی مسائل سے ذوق و شغل رکھتے ہوں اور علماء کی صحبت سے فیضیاب ہوں ورنہ بہت سے اعرابی جاہل خصوصاً ہندوستان اور مشرق میں ایسے ہیں جو بہت سے ضروریاتِ دین سے آشنا نہیں اس معنی میں نہیں کہ ضروریات دین کے منکر ہیں بلکہ وہ ان سے غافل ہیں۔بڑا فرق ہے عدمِ علم او ر علمِ عدم میں خواہ یہ جہل مرکب ہی ہو تو اس فرق سے بے خبری نہ رہے اور میرے نزدیک تحقیق یہ ہے کہ ضرورت یہاں بداہت کے معنی میں ہے اور یہ بات طے شدہ ہے کہ مختلف لوگوں کے اعتبار سے بداہت و نظریت بھی مختلف ہوتی ہے بہت سے نظری مسائل کی بنیاد کسی اور نظری مسئلہ پر ہوتی ہے اگر وہ بنیاد کسی طبقہ کے نزدیک روشن و واضح ہو کر ایک مقررہ قاعدہ اور واضح علم کی حیثیت اختیار کر لے تو دوسرا مسئلہ جس کے واضح ہونے کے لئے بس اسی پہلے مسئلہ کے واضح ہونے کی ضرورت تھی اس طبقہ کے نزدیک ضروریات کی صف میں آ جاتا ہے اگرچہ وُہ بذات خود نظری تھا۔(ت)
پھر اگر مجتہد کو بنظر دلائل شرعیہ جو اس پر ظاہر ہوئے اس طلب جزمی میں اصلا شبہ نہیں بایں وجہ اس کی نظر میں اس شے کا وجود شرط صحت و براءت ذمہ بمعنی عدم بقائے اشتغال قطعی ہے یعنی اگر وہ کسی عمل میں فرض ہو تو بے اس کے وہ عمل باطل محض ہو اور مستقل مطلوب ہے تو بے اس کی براءت ذمہ نہ ہونے پر اسے جزم ہو تو فرض عملی ہے۔
اور اگر خود اس کی رائے میں بھی طلب جزمی جزمی نہیں تو واجب عملی کہ بغیر اس کے حکم صحت حاصل اور براءت ذمہ محتمل”ملتقطا۔
(فتاوی رضویہ، ج١،ص٢٤٠تا٢٤٦)
واللہ تعالی اعلم
شان محمد المصباحی القادری
٢٧اگست٢٠٢٠