جس گاؤں میں کئی سالوں سے اعتکاف نہیں کیا گیا ان لوگوں پہ شرعاً کیا حکم ہے؟

جس گاؤں میں کئی سالوں سے اعتکاف نہیں کیا گیا ان لوگوں پہ شرعاً کیا حکم ہے ۔

کیا اعتکاف کےلیے روزہ رکھنا بھی شرط ہے، نیز اعتکاف اور لیلۃالقدر کے فضائل کیا ہیں .؟

اَلسَّــلَامْ عَلَیْڪُمْ وَرَحمَةُ اللہِ وَبَرَڪَاتُہْ

الـســــــوال : 

علمائے کرام کی بارگاہ میں سوال ہے کہ (۱) ایک مسجد ہے اس مسجد میں ایک امام صاحب ستر سال سے رہتے تھے اور ستر سال میں رمضان شریف میں کبھی اعتکاف میں لوگ نہیں بیٹھے ہیں کیا اس کا کوئی گناہ ہے اب جو نئے امام صاحب آئے ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ اعتکاف میں بیٹھنے کے لئے تو کس کی بات درست ہے (۲)کیا اعتکاف کےلیے روزہ رکھنا بھی شرط ہے ۔ (۳)اور اعتکاف کی کیا فضیلت ہے اس کو بیان کیا جائے (۴) اور لیلۃ القدر کسے کہتے ہیں اس کی فضیلتیں بیان کیا جائے حضور تفصیل کے ساتھ جواب سے نوازیں –

المستفتی : حافظ محمد حیدر علی گوپال گنج بیھار

وَعَلَیْڪُمْ اَلسَّــلَامْ وَرَحْمَةُ اللہِ وَبَرَڪَاتُہْ

الجـــــوابـــــــــــــــــــــــ بعون الملک الوہاب

جواب نمبر ١:- صورت مذکورہ میں جواب یہ ہےکہ نئے امام صاحب کی بات درست ہے کیونکہ رمضان شریف کا اعتکاف سنت مؤکدہ ہے ” اور سوال میں ذکر ہےکہ ستر سال سے اعتکاف نہیں کیا گیا اور پرانے امام صاحب نے بھی اعتکاف کے متعلق نہیں بتائے تو اس بنا پر گاؤں کے سب لوگ اور امام صاحب بھی گنہگار ہوئے کیونکہ انہوں نے صحیح مسئلے سے لوگوں کو آگاہ نہیں کیا اس لئے آئندہ ہر سال کم از کم ایک آدمی اعتکاف میں بیٹھیں اور اعتکاف نہ کرنے کے سبب جو گناہ ہوا سب لوگ اس سے توبہ کریں”

چنانچہ حضور صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت علامہ مفتی امجد علی‌اعظمی‌ علیہ الرحمہ بہار شریعت میں اعتکاف کے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ مسجد میں اللہ عزوجل کے لئے نیت کے ساتھ ٹھہرنا اعتکاف ہے اور اس کے لئے مسلمان عاقل اور جنابت و حیض و نفاس سے پاک ہونا شرط ہے بالغ ہونا شرط نہیں بلکہ نابالغ جو تمیز رکھتا ہو اگر بنیت اعتکاف مسجد میں ٹھہرے تو یہ اعتکاف صحیح ہے آزاد ہونا بھی شرط نہیں لہذا غلام بھی اعتکاف کر سکتا ہے مگر اسے مولی سے اجازت لینی ہوگی اور مولی کو بہر حال منع کرنے کا حق حاصل ہے

رمضان شریف کا اعتکاف سنت مؤکدہ ہے کہ رمضان کے پورے عشرۂ اخیرہ یعنی آخر کے دس دن میں اعتکاف کیا جائے یعنی بیسویں رمضان کو سورج ڈوبتے وقت بہ نیت اعتکاف مسجد میں ہو اور تیسویں کے غروب کے بعد یا انتیسویں کو چاند ہونے کے بعد نکلے اگر بیسویں تاریخ کو بعد نمازِ مغرب نیت0 اعتکاف کی تو سنت اعتکاف ادا نہ ہوئی اور یہ اعتکاف سنت کفایہ ہے اگر سب ترک کریں تو سب سے مطالبہ ہوگا اور شہر میں ایک نے اعتکاف کر لیا تو سب بری الذمہ ہو گئے یعنی سب کے طرف سے ادا ہو گئی.

جواب نمبر(۲) اعتکاف سنت یعنی رمضان شریف کی پچھلی دس تاریخوں میں جو کیا جاتا ہے اس کیلئے روزہ رکھنا شرط ہے لہذا اگر کسی مریض یا مسافر نے اعتکاف تو کیا مگر روزہ نہ رکھا تو سنت ادا نہ ہوئی بلکہ نفل ہوا.

(بہار شریعت جلد اول حصہ پنجم صفحہ١٠٢٠ ,١٠٢١, ۱۰۲۲ مکتبۃ المدینہ،)

جواب نمبر ۳:- اِعتکاف کے فضائل

الله تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے "

ولاتباشروھن وانتم عاکفون فی المساجد "

اور عورتوں سے مباشرت نہ کرو جب تم مسجدوں میں اِعتکاف سے ہو (سورہ بقرہ آیت ۱۸۷ )

حدیث١ صحیحین میں اُمّ الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اِعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ (بخاری و مسلم)

 حدیث۲ ابن ماجہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے‌ معتکف کے بارے میں فرمایا کہ وہ گناہوں سے باز رہتا ہے اور نیکیوں سے اسے اس قدر ثواب ملتا ہے جیسے اس نے تمام نیکیاں کیں

حدیث۳ بیہقی امام حسین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے‌فرمایا کہ جس نے رمضان میں دس دنوں کا اعتکاف کر لیا تو ایسا ہے جیسے دو حج دو عمرے کئے ۔

اس لئے اللہ تعالیٰ توفیق دے تو ہر مسلمان کو اس سنت کی برکتوں سے فائدہ اُٹھانا چاہئے، مسجدیں اللہ تعالیٰ کا گھر ہیں، اور کریم آقا کے دروازے پر سوالی بن کر بیٹھ جانا بہت ہی بڑی سعادت ہے۔

جواب نمبر ۴:- لیلتہ القدر اسے کہتے ہیں کہ: رمضان المبارک کی ہی ایک بابرکت شب آسمانِ دنیا پر پورے قرآن کا نزول ہوا لہٰذا اس رات کو ﷲ رب العزت نے تمام راتوں پر فضیلت عطا فرمائی اور اسے شبِ قدر قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا

لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ(سورة القدر)

شبِ قدر فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں ہزار مہینوں سے بہتر ہے”

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب*

اسیر حضور تاج الشریعـــہ

محــمد نـورجـمال رضـوی, اتر دیناج پـور ویسٹ بنــگال الہنــــــد

کتبـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ

مؤرخہ:(۱۷) رمضان المبارک ۲٤٤١؁ھ بروز؛ جمعہ،

Leave a Reply