عیدگاہ میں امام کے لئے چندہ کرنا کیسا ہے؟

عیدگاہ میں امام کے لئے چندہ کرنا کیسا ہے؟

مفتی محمد ارشد حسین الفیضی ۔

عیدگاہ میں عید کے دن عید الفطر اور عید الاضحٰی کی نماز پڑھانے والے امام کے لیے ذمہ داروں کا چندہ کرنا کیسا ہے؟
اور اگر ذمہ داران چندہ نہیں کرتے ہیں تو ان سے کہہ کر چندہ کروانا کیسا ہے جبکہ عیدگاہ میں عید کے دن امام کو کوئی بھی ہدیہ نذرانہ تحفہ نہیں پیش کرتا ہے؟
کیا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ تابعین، ائمہ مجتہدین ودیگر اولیاء اللہ کی زندگی سے عیدگاہ میں امام دوگانہ کے لیے چندہ کرنے کا ثبوت ملتا ہے؟
اور ایک حدیث بیان کی جاتی ہے کہ جب سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم عیدگاہ میں عید کی نماز اور چندہ کرنے سے فارغ ہوئے تو حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اپنا نورانی چادر عطا فرماکر فرمایا بلال عورتوں کے پاس چلے جاؤ جب عورتوں کے پاس گئے تو عورتوں نے اپنے اپنے زیورات اتار کر نورانی چادر میں ڈال دیا کیا یہ حدیث صحیح ہے؟
عیدگاہ میں امام دوگانہ کے لیے چندہ کرتے وقت اس حدیث کو دلیل بنانا صحیح ہے؟ بینوا وتوجروا.
المستفتی:عبد السلام سبحانی، بستی
بسم ﷲ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب

عیدگاہ میں کار خیر کے لیے چندہ کرنا جائز اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے بخاری شریف میں ہے” قام النبی صلہ اللہ علیہ وسلم یوم الفطر فصلی فبدأ بالصلاۃ ثم خطب فلما فرغ نزل فأتی النساء فذکّرھن وھو یتؤکأ علی ید بلال وبلال باسط ثوبہ یلقی فیہ النساء الصدقۃ”اھ وفی روایۃ اخری”امرھن الصدقۃ فرأیتھن یھوین بایدیھن یقذفہ فی ثوب بلال ثم انطلق ھو وبلال الی بیتہ”اھ (ج١ص٢٠٦، کتاب العیدین، باب العلم بالمصلی، وباب مؤعظۃ الإمام النساء یوم العید، الحدیث:٩٧٨،٩٧٧، مکتبہ رحمانیہ)

یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن کھڑے ہوئے پھر آپ نے نماز پڑھائی پھر آپ نے خطبہ دیا جب آپ فارغ ہوگیے تو منبر سے اترے پھر خواتین کے پاس گئے ان کو نصیحت کی اس وقت آپ حضرت بلال کے ہاتھ پر ٹیک لگائے ہوئے تھے اور حضرت بلال نے کپڑا پھیلایا ہوا تھا اور خواتین اس کپڑے میں صدقہ ڈال رہی تھیں، اور دوسری روایت میں ہے کہ ان کو صدقہ کرنے کا حکم دیا پھر میں نے ان عورتوں کو دیکھا وہ ہاتھ بڑھاتیں اور حضرت بلال کے کپڑے میں(زیورات اتار کر) ڈالتیں پھر آپ اور حضرت بلال اپنے گھر چلے گئے.

اور امام عیدین کے لیے بھی چندہ کرنا کار خیر ہے خواہ اجرتا دینے کے لیے ہو یا إحسانا، لہذا ذمہداران کا امام عیدین کے لیے عیدگاہ میں چندہ کرنا جائز ودرست ہے ذمہداران خود سے کریں یا کسی کے کہنے سے کریں بشرطیکہ حدود شرعیہ میں رہتے ہوئے کریں اور کسی کو تکلیف وایذاء نہ پہنچائیں.

اسے بھی پڑھیں

بچنے والا چندہ مسجد و مدرسہ وغیرہ میں دینا کیسا ؟

نیز مسجد وعیدگاہ میں ضروریات مسجد وعیدگاہ اور مصالح مسجد وعیدگاہ کے لیے چندہ کیا جاتا ہے جسے فقہاء کرام جائز بھی کہتے ہیں اور اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہوتا جبکہ امام کے لیے ہوتو لوگ اعتراض کرنے لگتے ہیں حالانکہ فقہاء نے امام کا شمار مصالح مسجد وعیدگاہ میں کیا ہے علامہ ابن عابدین شامی علیہ رحمۃ الباری فرماتے ہیں”مصالح المسجد یدخل فیہ المؤذن والناظر ویدخل تحت الإمام الخطیب لانہ امام الجامع”اھ(رد المحتار ج٦ص٥٦٣، کتاب الوقف، مطلب یبدأ بعد العمارۃ بما ھو أقرب الیھا)

فتاویٰ رضویہ میں ہے”مسجد میں دوسرے محتاج کے لیے امداد کو کہنا یا کسی دینی کام کے لیے چندہ کرنا جس میں نہ غل شور ہو نہ گردن پھلانگنا نہ کسی کی نماز میں خلل یہ بلا شبہ جائز بلکہ سنت سے ثابت ہے” اھ ملخصا(ج٩ص٢٥٢،نصف ثانی، کتاب الحظر والاباحۃ)
اسی میں ہے”امور خیر کے لیے چندہ کرنا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے”اھ(ج٦ص٤٦٠، کتاب الوقف، باب المسجد)

البتہ خصوصیت کے ساتھ امام عیدین کے لیے عیدگاہ میں چندہ وصولنے کی کوئی روایت میری نظر سے نہیں گزری وﷲ تعالیٰ اعلم بالصواب.
کتبہ:محمد ارشد حسین الفیضی
٢٨ رمضان المبارک ١٤٤٤ھ

Leave a Reply

%d