قنوت بھولنے پر پلٹنا جائز نہیں اور نہ ہی پلٹنے کیلئے لقمہ دینا جائز
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
مفتیان کرام کی بارگاہ میں یہ مسئلہ ہے کہ امام وتر کی نماز پڑھا رہا تھا تیسری رکعت میں تکبیر بول کر رکوع میں چلا گیا جبکہ اسے رفع یدین کرکے دعاے قنوت پڑھنا تھا تو اب کیا کرے اور اگر مقتدی کے لقمہ دینے پر واپس لوٹ آئے تو کیا حکم ہے وضاحت فرمائیں۔
سائل:محمد سیف علی جمشید پور جھارکھنڈ
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ و برکاتہ
الجوابـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔
١) جو شخص دعاے قنوت پڑھنا بھول جاے اور رکوع میں چلا جائے تو اسے دعاے قنوت پڑھنے کیلئے رکوع سے قیام کی طرف واپس پلٹنا جائز نہیں بلکہ حکم یہ ہے کہ نماز مکمل کرے اور آخر میں سجدہ سہو کرے لہذا امام رکوع سے نہ پلٹے اور آخر میں سجدہ سہو کرکے نماز مکمل کرے ۔
فتاوی ہندیہ میں ہے "ﻭﻟﻮ ﻧﺴﻲ اﻟﻘﻨﻮﺕ ﻓﺘﺬﻛﺮ ﻓﻲ اﻟﺮﻛﻮﻉ ﻓﺎﻟﺼﺤﻴﺢ ﺃﻧﻪ ﻻ ﻳﻘﻨﺖ ﻓﻲ اﻟﺮﻛﻮﻉ ﻭﻻ ﻳﻌﻮﺩ ﺇﻟﻰ اﻟﻘﻴﺎﻡ ﻫﻜﺬا ﻓﻲ اﻟﺘﺘﺎﺭﺧﺎﻧﻴﺔ۔
اﻹﻣﺎﻡ ﺇﺫا ﺗﺬﻛﺮ ﻓﻲ اﻟﺮﻛﻮﻉ ﻓﻲ اﻟﻮﺗﺮ ﺃﻧﻪ ﻟﻢ ﻳﻘﻨﺖ ﻻ ﻳﻨﺒﻐﻲ ﺃﻥ ﻳﻌﻮﺩ ﺇﻟﻰ اﻟﻘﻴﺎﻡ ملتقطا”
(ج١،ص١١١)۔
نیز اسی میں ہے "ﻭﻣﻨﻬﺎ اﻟﻘﻨﻮﺕ ﻓﺈﺫا ﺗﺮﻛﻪ ﻳﺠﺐ ﻋﻠﻴﻪ اﻟﺴﻬﻮ ﻭﺗﺮﻛﻪ ﻳﺘﺤﻘﻖ ﺑﺮﻓﻊ ﺭﺃﺳﻪ ﻣﻦ اﻟﺮﻛﻮﻉ ﻭﻟﻮ ﺗﺮﻙ اﻟﺘﻜﺒﻴﺮﺓ اﻟﺘﻲ ﺑﻌﺪ اﻟﻘﺮاءﺓ ﻗﺒﻞ اﻟﻘﻨﻮﺕ ﺳﺠﺪ ﻟﻠﺴﻬﻮ ﻭﻷﻧﻬﺎ ﺑﻤﻨﺰﻟﺔ ﺗﻜﺒﻴﺮاﺕ اﻟﻌﻴﺪ ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﺘﺒﻴﻴﻦ”
(ج١،ص١٢٨)۔
بہار شریعت میں ہے”قنوت یا تکبیر قنوت یعنی قراءت کے بعد قنوت کے لیے جو تکبیر کہی جاتی ہے بھول گیا سجدۂ سہو کرے”
(ج٤،ص٧١٤)۔
٢) مقتدی نے لقمہ دیا اور امام نے لقمہ لیا تو سب کی نماز فاسد ہو گئی دوبارہ پڑھنا لازم ہے اسلئے کہ دعاے قنوت پڑھنے کیلئے رکوع سے پلٹنا جائز نہیں تو مقتدی کا لقمہ محض بے فائدہ رہا اور اپنے اصلی حکم کی رو سے کلام ہوکر مفسد نماز ہوا جس سے مقتدی نماز سے باہر ہو گیا اور پھر امام نے خارج من الصلاۃ کا لقمہ لیا تو اس کی بھی نماز فاسد ہو گئی اور اس کے ساتھ تمام مقتدیوں کی بھی فاسد ۔
بحر الرائق میں ہے "ﻟﻮ ﻋﺮﺽ ﻟﻹﻣﺎﻡ ﺷﻲء ﻓﺴﺒﺢ اﻟﻤﺄﻣﻮﻡ ﻻ ﺑﺄﺱ ﺑﻪ ﻷﻥ اﻟﻤﻘﺼﻮﺩ ﺑﻪ ﺇﺻﻼﺡ اﻟﺼﻼﺓ ﻓﺴﻘﻂ ﺣﻜﻢ اﻟﻜﻼﻡ ﻋﻨﺪ اﻟﺤﺎﺟﺔ ﺇﻟﻰ اﻹﺻﻼﺡ ﻭﻻ ﻳﺴﺒﺢ ﻟﻹﻣﺎﻡ ﺇﺫا ﻗﺎﻡ ﺇﻟﻰ اﻷﺧﺮﻳﻴﻦ ﻷﻧﻪ ﻻ ﻳﺠﻮﺯ ﻟﻪ اﻟﺮﺟﻮﻉ ﺇﺫا ﻛﺎﻥ ﺇﻟﻰ اﻟﻘﻴﺎﻡ ﺃﻗﺮﺏ ﻓﻠﻢ ﻳﻜﻦ اﻟﺘﺴﺒﻴﺢ ﻣﻔﻴﺪا ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﺒﺪاﺋﻊ ﻭﻳﻨﺒﻐﻲ ﻓﺴﺎﺩ اﻟﺼﻼﺓ ﺑﻪ ﻷﻥ اﻟﻘﻴﺎﺱ ﻓﺴﺎﺩﻫﺎ ﺑﻪ ﻋﻨﺪ ﻗﺼﺪ اﻹﻋﻼﻡ ﻭﺇﻧﻤﺎ ﺗﺮﻙ ﻟﻠﺤﺪﻳﺚ اﻟﺼﺤﻴﺢ «ﻣﻦ ﻧﺎﺑﻪ ﺷﻲء ﻓﻲ ﺻﻼﺗﻪ ﻓﻠﻴﺴﺒﺢ» ﻓﻠﻠﺤﺎﺟﺔ ﻟﻢ ﻳﻌﻤﻞ ﺑﺎﻟﻘﻴﺎﺱ ﻓﻌﻨﺪ ﻋﺪﻣﻬﺎ ﻳﺒﻘﻰ اﻷﻣﺮ ﻋﻠﻰ ﺃﺻﻞ اﻟﻘﻴﺎﺱ”
(ج٢،ص٨،ش)
فتاوی رضویہ میں ہے "امام قعدہ اولٰی چھوڑ کر پورا کھڑا ہوجائے تواب مقتدی بیٹھنے کا اشارہ نہ کرے ورنہ ہمارے امام کے مذہب پر مقتدی کی نماز جاتی رہے گی کہ پورا کھڑے ہونے کے بعد امام کوقعدہ اولٰی کی طرف عودناجائز تھا تو اس کابتانا محض بے فائدہ رہا اور اپنے اصلی حکم کی رو سےکلام ٹھہر کر مفسدنماز ہوا”
(ج٧،ص٢٦٥)
واللہ سبحانہ و تعالی اعلم
کتبــــــــہ : مفتی شان محمد المصباحی القادری
١٨ اپریل ٢٠٢٠