نکاح ثانی کے بعد عورت مستحق ترکہ ہے یا نہیں از کمال احمد علیمی نظامی جامعہ علیمیہ جمدا شاہی بستی

نکاح ثانی کے بعد عورت مستحق ترکہ ہے یا نہیں

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

مسئلہ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ:

بیوہ اگر نکاح ثانی کرلے تو شوہر اول کی جائیداد سے حصہ ملے گا یا نہیں؟ بینوا توجروا

المستفتی

محمد توصیف رضا علیمی (کٹیہار)

الجواب باسم الذی یھدی الی الصواب

وعليكم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ

صورت مذکورہ میں بلا شبہہ بیوی اپنے پہلے شوہر کی وفات پر اس کے ترکہ سے حصہ پائے گی،اگر شوہر نے بیٹا بیٹی یا پوتی نہیں چھوڑا ہے تو بیوی کو شوہر کے ترکے کا چوتھائی حصہ ملے گا، اور اگر شوہر نے بیٹا بیٹی یا پوتا پوتی چھوڑا ہے تو بیوی کو ترکے سے آٹھواں حصہ ملے گا.

قرآن مجید میں ہے:

ولکم نصف ماترک ازواجکم ان لم یکن لھن ولد فان کان لھن ولد فلکم الربع مما ترکن من بعد وصیة یوصین بھا اودین ولھن الربع مما ترکتم ان لم یکن لکم ولد فان کان لکم ولد فلھن الثمن مما ترکتم من بعد وصیة توصون بھا اودین “۔(النساء :١٢)

حدیث شریف میں ہے :

"حدثنا عبد بن حميد حدثني زكريا بن عدي أخبرنا عبيد الله بن عمرو عن عبد الله بن محمد بن عقيل عن جابر بن عبد الله قال جاءت امرأة سعد بن الربيع بابنتيها من سعد إلى رسول الله ﷺ فقالت يا رسول الله هاتان ابنتا سعد بن الربيع قتل أبوهما معك يوم أحد شهيدا وإن عمهما أخذ مالهما فلم يدع لهما مالا ولا تنكحان إلا ولهما مال قال يقضي الله في ذلك فنزلت آية الميراث فبعث رسول الله ﷺ إلى عمهما فقال أعط ابنتي سعد الثلثين وأعط أمهما الثمن وما بقي فهو لك قال أبو عيسى هذا حديث صحيح لا نعرفه إلا من حديث عبد الله بن محمد بن عقيل وقد رواه شريك أيضا عن عبد الله بن محمد بن عقيل”(ترمذی، کتاب الفرائض ،باب ما جاء فی میراث البنات ،رقم الحدیث٩ ٢٠٩)

السراجیہ للعلامہ سراج الدین محمد بن عبدالرشید حنفی سجاوندی میں ہے :

"للزوجات حالتان :الربع للواحدۃ فصاعدۃ عند عدم الولد اوولدالابن وان سفل، والثمن مع الولد اوولدالابن وان سفل” ( فصل فی النساء، ص ٢٠،مطبع مکتبۃ المدینہ کراچی )

بہار شریعت میں ہے :

"اگر میت کی بیوی کے ساتھ میت کا بیٹا بیٹی یا پوتا پوتی نہ ہو تو اس کو کل مال کا چوتھائی ملے گا…. اور اگر میت کی بیوی کے ساتھ میت کا بیٹا بیٹی یا پوتا پوتی ہو تو اس کو آٹھواں حصہ ملے گا "(بہار شریعت حصہ بستم ص ١١٢٠،قادری کتاب گھر بریلی شریف)

فتاوی مفتی اعظم ہند میں ہے :

” بے شک زناے محصنہ کے لیے رجم ہے،، اگر رجم ہوتی اور اس سے مر جاتی تو شوہر کی زندگی میں مرنے سے ترکہ نہ پاتی کہ ترکہ تو شوہر کے بعد ہوگا اور وہ شوہر کے سامنے مرگئی،…… لہذا (متوفی عنھا زوجھا) ترکہ کی مستحق ہے "(ج پنجم کتاب المیراث،ص ٣٨٥ مطبع امام احمد رضا اکیڈمی بریلی شریف)

*فتاوی فیض الرسول میں ہے :

” دوسری شادی کرنے کے بعد بھی عورت اپنے متوفی شوہر کی جائداد میں حصہ پانے کی مستحق ہے، اگر اس کے خاوند نے کوئی اولاد نہیں چھوڑی تو اس صورت میں اس کی کل جائداد میں سے چوتھائی حصہ بیوی کا ہے، اور اگر لڑکی یا لڑکا کوئی اولاد چھوڑ کر مرا ہے تو آٹھواں حصہ ہے” (جلد دوم، ص ٧٢٨،مطبع دارالاشاعت فیض الرسول براوں شریف)

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ :کمال احمد علیمی نظامی جامعہ علیمیہ جمدا شاہی بستی

الجواب صحیح محمد نظام الدین قادری خادم درس و افتاء جامعہ علیمیہ جمدا شاہی

23/ذی الحجہ 1442ھ

3/اگست 2021

Leave a Reply

%d bloggers like this: