ڈھول بجوانے والے کے متعلق شریعت کا حکم ہے ؟

ڈھول بجوانے والے کے متعلق شریعت کا حکم ہے ؟

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام ایسے شخص کے لیے جس کانام محمد جمیل ولد محمد عالم ہنڈی چھڑونگ کے رہنے والے نےاپنے ہی مکان کے لنٹر پر ڈھول بجوائے حتی کہ اذان کے وقت بھی ڈھول بند نہیں کروائے ایسے شخص کے لیے شریعت کا کیا حکم ہے ؟ضرور جواب عنایت فرمائیں۔

المستفتی:۔ سید محمد عارف امام وخطیب جامع مسجد چھڑنگ تھنہ منڈی راجوری جموں وکشمیر

 الجواب بعون الملك الوهاب

ڈھول باجے بجانا ناجائز اور حرام ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے”ومن الناس من يشترى لهو الحديث ليضل عن سبيل الله بغير علم ويتخذها هزوا آولئك لهم عذاب مهين”(سورہ لقمان:آیت:۶)ترجمہ:-اور کچھ لوگ کھیل کی باتیں خریدتے ہیں کہ اللہ کی راہ سے بہکا دیں بے سمجھے اور اسے ہنسی بنالیں ان کے لیے ذلت کا عذاب ہے”(کنز الایمان ص ۷۴۰)
لهو الحديث،سے متعلق تفسیر الجامع لأحكام القران للقرطبي میں ہے”الغناء والمزامیر”(ج ۱۴ ص ۵۱/المكتبة الشيعية) یعنی لھوالحدیث سے مراد ناچ گانا اور آلات موسیقی(ڈھول،باجا،سارنگی وغیرہ) ہیں-
لفظ "لھو” کے متعلق حضور صدر الافاضل فخر الاماثل علامہ نعیم الدین مرادابادی قدس سرہ العزیر تحریر فرماتے ہیں”لہو یعنی کھیل ہر اس باطل کو کہتے ہیں جو آدمی کو نیکی سے اور کام کی باتوں سے غفلت میں ڈالے کہانیاں افسانے اسی میں داخل ہیں”(تفسیر خزائن العرفان مع کنز الایمان ص ۷۴۰)
مذکورہ آیت کریمہ کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے”اس آیت سے علماء کرام نے گانے بجانے کی حرمت پر استدلال کیا ہے”(ج ۷ ص ۴۷۵)

حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں”ليكونن من امتى اقوام يستحلون الحر والحرير والخمر والمعازف”(صحیح بخاری: کتاب الاشربہ: باب ماجاء فیمن یستحل الخمر ویسمیه بغير اسمه:رقم الحدیث : ۵۵۹۰) یعنی ضرور میری امت میں کچھ لوگ ایسے ہونے والے ہیں کہ حلال ٹھہرائیں گے عورتوں کی شرمگاہ یعنی زنا اور ریشمی کپڑوں اور شراب اور باجوں کو-

در مختار میں ہے”قلت:وفي البزازية:استماع صوت الملاهى كضرب قصب ونحوه حرام لقوله عليه الصلاة والسلام:استماع صوت الملاهى معصيةوالجلوس عليها فسق والتلذذ بها كفر:أي، بالنعمة”(درمختار مع رد المحتار ج۹ ص ۵۰۴/ دارعالم الكتب الرياض)
البحر الرائق میں ہے”(قوله أو يغنى للناس) لأنه يجمع الناس على ارتكاب كبيرة كذا فى الهداية وظاهره ان الغناء كبيرة”(ج ۷ ص ۱۴۸/ دار الكتب العلمية،بيروت،لبنان)
فتح القدیر میں ہے "ولذا عللہ في الكتاب بأنه يجمع الناس على ارتكاب كبيرة وفي النهاية أن الغناء في حقهن مطلقا حرام لرفع صوتهن وهو حرام”(ج ۷ ص ۳۸۱/دار الکتب العلمیة،بیروت،لبنان)
فتاوی رضویہ میں ہے "مختصرا اسی طرح یہ گانے باجے کہ ان بلاد میں معمول ورائج ہیں بلاشبہ ممنوع وناجائز ہیں”(ج ۹ ص ۷۷ نصف اول)
فتاوی امجدیہ میں ہے”ڈھول بجانا،عورتوں کا گانا،ناچ،باجا،یہ سب حرام ہیں”(ج۴ ص۷۵)

مذکورہ دلائل سے ڈھول باجے کی حرمت روز روشن کی طرح واضح ہو گئی لہذا بر تقدیر صدق مستفتی مذکور فی السوال شخص جس نے اپنے مکان کے لنٹر پر ڈھول بجوائے حتی کہ آذان کے وقت بھی بند نہیں کروائے اس فعل قبیح کی وجہ سے سخت فاسق وفاجر حرام کبیرہ کا مرتکب مستحق غضب جبار وعذاب نار ہے جب تک یہ علانیہ توبہ صادقہ کرکے آئندہ اس حرکت قبیح سے باز نہ آجائے مسلمانوں کو چاہیے کہ اس کا مکمل بائیکاٹ کریں نہ تو اس کے ساتھ کھائیں پئیں اور نہ ہی نشست و برخاست رکھیں۔ والله تعالیٰ اعلم بالصواب

کتبہ:۔ محمد ارشاد رضا علیمی غفرلہ مدرس دار العلوم رضویہ اشرفیہ ایتی راجوری جموں وکشمیر٤/صفر المظفر ١٤٤٥ھ مطابق ٢٢/ اگست ٢٠٢٣ء

الجواب صحیح :محمد نظام الدین قادری خادم درس وافتا دار العلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی

Leave a Reply