ڈھول باجے بجانے والے کا شرعی حکم کیا ہے؟ از مفتی محمد ارشاد رضا علیمی

ڈھول باجے بجانے والے کا شرعی حکم کیا ہے؟

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ کلر دھرم سیوٹ میں ایک شخص نے مکان کی لادی میں ڈھول بجوائے امام صاحب نے توبہ کرائی اس کے بعد کچھ عرصہ بعد اس نے لنٹر ڈالا پھر ڈھول بجوائے امام نے جامع مسجد میں آکر جمعہ کے دن اعلانیہ توبہ کرنے کو کہا لیکن وہ تین چار مہینے ہوگئے نہیں آیا، قرآن وحدیث کی روشنی میں ایسے شخص کا حکم بیان فرمائیں بڑی مہربانی ہوگی۔

المستفتی:۔(قاری)وجاہت حسین اجملی مدرس دار العلوم رضویہ اشرفیہ ایتی راجوری جموں وکشمیر

الجواب بعون الملك الوهاب:۔

ڈھول باجے بجانا حرام سخت حرام ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے”ومن الناس من يشترى لهو الحديث ليضل عن سبيل الله بغير علم ويتخذها هزوا آولئك لهم عذاب مهين”(سورہ لقمان:آیت:۶)ترجمہ:-اور کچھ لوگ کھیل کی باتیں خریدتے ہیں کہ اللہ کی راہ سے بہکا دیں بے سمجھے اور اسے ہنسی بنالیں ان کے لیے ذلت کا عذاب ہے”(کنز الایمان ص ۷۴۰)
لهو الحديث،سے متعلق تفسیر الجامع لأحكام القران للقرطبي میں ہے”الغناء والمزامیر”(ج ۱۴ ص ۵۱/المكتبة الشيعية) یعنی لھوالحدیث سے مراد ناچ گانا اور آلات موسیقی(ڈھول،باجا،سارنگی وغیرہ) ہیں-
لفظ "لھو” کے متعلق حضور صدر الافاضل فخر الاماثل علامہ نعیم الملة والدین قدس سرہ العزیر تحریر فرماتے ہیں”لہو یعنی کھیل ہر اس باطل کو کہتے ہیں جو آدمی کو نیکی سے اور کام کی باتوں سے غفلت میں ڈالے کہانیاں افسانے اسی میں داخل ہیں”(تفسیر خزائن العرفان مع کنز الایمان ص ۷۴۰)
مذکورہ آیت کریمہ کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے”اس آیت سے علماء کرام نے گانے بجانے کی حرمت پر استدلال کیا ہے”(ج ۷ ص ۴۷۵)

حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں”ليكونن من امتى اقوام يستحلون الحر والحرير والخمر والمعازف”(صحیح بخاری: کتاب الاشربہ: باب ماجاء فیمن یستحل الخمر ویسمیه بغير اسمه:رقم الحدیث : ۵۵۹۰) یعنی ضرور میری امت میں کچھ لوگ ایسے ہونے والے ہیں کہ حلال ٹھہرائیں گے عورتوں کی شرمگاہ یعنی زنا اور ریشمی کپڑوں اور شراب اور باجوں کو-

در مختار میں ہے”قلت:وفي البزازية:استماع صوت الملاهى كضرب قصب ونحوه حرام لقوله عليه الصلاة والسلام:استماع صوت الملاهى معصيةوالجلوس عليها فسق والتلذذ بها كفر:أي، بالنعمة”(درمختار مع رد المحتار ج۹ ص ۵۰۴/ دارعالم الكتب الرياض)
البحر الرائق میں ہے”(قوله أو يغنى للناس) لأنه يجمع الناس على ارتكاب كبيرة كذا فى الهداية وظاهره ان الغناء كبيرة”(ج ۷ ص ۱۴۸/ دار الكتب العلمية،بيروت،لبنان)
فتح القدیر میں ہے "ولذا عللہ في الكتاب بأنه يجمع الناس على ارتكاب كبيرة وفي النهاية أن الغناء في حقهن مطلقا حرام لرفع صوتهن وهو حرام”(ج ۷ ص ۳۸۱/دار الکتب العلمیة،بیروت،لبنان)
فتاوی رضویہ میں ہے "مختصرا اسی طرح یہ گانے باجے کہ ان بلاد میں معمول ورائج ہیں بلاشبہ ممنوع وناجائز ہیں”(ج ۹ ص ۷۷ نصف اول)
فتاوی امجدیہ میں ہے”ڈھول بجانا،عورتوں کا گانا،ناچ،باجا،یہ سب حرام ہیں”(ج۴ ص۷۵)

مذکورہ دلائل سے ڈھول باجے کی حرمت روز روشن کی طرح واضح ہو گئی لہذا سوال میں مذکور شخص جس نے ڈھول بجوانے کے بعد توبہ کی اس کے بعد پھر اس فعل قبیح کا ارتکاب کیا سخت فاسق وفاجر حرام کبیرہ کا مرتکب مستحق غضب جبار وعذاب نار ہے جب تک یہ علانیہ توبہ صادقہ کرکے آئندہ اس حرکت قبیح سے باز نہ آجائے مسلمانوں کو چاہیے کہ اس کا مکمل بائیکاٹ کریں نہ تو اس کے ساتھ کھائیں پئیں اور نہ ہی نشست و برخاست رکھیں۔ والله تعالیٰ اعلم بالصواب

کتبہ:۔ محمد ارشاد رضا علیمی غفرلہ مدرس دار العلوم رضویہ اشرفیہ ایتی راجوری جموں وکشمیر ٤/محرم الحرام ١٤٤٥ھ مطابق ٢٣/ جولائی ٢٠٢٣ء.

الجواب صحيح :محمد نظام الدین قادری خادم درس وافتا دار العلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی

Leave a Reply