جبراً دھوکھے سے طلاق نامہ پر دستخط کروانے سے طلاق ہوگی یا نہیں ؟
سوال کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام ومفتیان شرع متین اس مسٸلے کے بارے میں کہ مختار علی اور یاسمینہ آختر دونوں میاں بیوی کو کچھ شر پسند افراد نے الگ کرنے کی کوشش کچھ اس کی کہ ایک تحریر نامہ تیار کیا گیا جس میں لفظ طلاق طلاق طلاق اور حرام حرام حرام ایک دوسرے پر لکھا گیا اور مختار علی سے جبراً دھوکھے سے دستخط بھی کروا لیے اور دوسری طرف یاسمینہ آختر بھی طلاق پر راضی نہیں ہے اور مختار علی کا کہنا ہے کہ میں نے زبان سے لفظ طلاق وغیرہ کچھ بھی نہیں کہا ہے اور دستخط بھی جبری ہیں اب دریافت طلب امر یہ ہےکہ کیا اس صورت میں طلاق واقع ہوٸی یا نہیں اگر ہوٸی تو کون سی طلاق واقع ہوٸی لہذا قران وسنت کی روشنی میں واضح فرمایٸں اور عند اللہ ماجور ہوں
منجانب:۔ مختار علی ساکنہ مندر گالہ بکوری ضلع رجوری
باسمه تعالى وتقدس الجواب بعون الملك الوهاب:۔
صورت مستفسرہ میں جبر سے مراد اگر اکراہ شرعی ہے یعنی جان سے مار ڈالنے یا کسی عضو کے کاٹے جانے کا صحیح اندیشہ تھا مختار علی نے ڈر سے تحریری طلاق نامہ پر دستخط کردیا دل میں طلاق دینے کا ارادہ نہ تھا نہ ہی زبان سے طلاق کا لفظ بولا تو اس صورت میں اس کی بیوی یاسمینہ اختر پر طلاق واقع نہ ہوئی لیکن اگر اکراہ شرعی نہیں پایا گیا تو اس صورت میں تحریری طلاق نامہ پر جس میں تین طلاق کا ذکر تھا مختار علی کے دستخط کردینے سے اس کی بیوی یاسمینہ اختر پر تین طلاق واقع ہوگئیں اب وہ بغیر حلالہ کے مختار علی کے لیے حلال نہیں ہوسکتی۔
فتاوی امجدیہ میں ہے” زبردستی سے اگر مراد اکراہ شرعی ہے کہ اس کو جان جانے یا عضو کاٹے جانے کا صحیح اندیشہ تھا اور تحریر لکھ دی تو اس تحریر سے طلاق واقع نہیں ہوئی. ۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر زبردستی سے مراد محض اصرار سے کہنا یا زور ڈالنا جو حد اکراہ شرعی کو نہ پہونچا ہو تو اس زبردستی کا کوئی اعتبار نہیں اور طلاق شرط کے پائے جانے کی وجہ سے واقع ہوجائے گی "(ج ٢ ص ١٨٥/ مکتبہ رضویہ آرام باغ روڈ کراچی)
فتاوی فقیہ ملت میں اسی طرح کا سوال ہوا کہ طلاق نامہ پر زبردستی دستخط کرالیاتو طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟، اس کا جواب دیتے ہوئے حضور فقیہ ملت تحریر فرماتے ہیں : صورت مسؤلہ میں اگر جبر شرعی ہے یعنی قتل، کسی عضو کے کاٹے جانے یا ضرب شدید کا ظن غالب ہوگیا تو اس صورت میں اس نے طلاق نامہ پر دستخط کردیا مگر نہ دل میں طلاق کا ارادہ کیا نہ زبان سے طلاق کا لفظ کہا تو طلاق واقع نہ ہوئی اور اگر محض سخت اصرار پر کہ اس کی بات کیسے ٹالی جائے دستخط کردیا تو طلاق واقع ہوگئی۔کیوں کہ یہ جبر نہیں۔ ایسا ہی فتاوی رضویہ جلد پنجم صفحہ ٦٣١ میں ہے۔ اور تنویر الابصار جلد دوم صفحہ ٤٥٦ میں ہے۔ "یقع طلاق کل زوج بالغ عاقل ولو مکرھا أو مخطئا۔ اھ، اور رد المحتار جلد دوم صفحہ ٤٥٧ میں بحر سے ہے۔ ” أن المراد الاکراہ علی التلفظ بالطلاق فلو اکرہ علی أن یکتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا.اھ”والله تعالیٰ اعلم۔(فتاوی فقیہ ملت ج ٢ ص ١٩/شبیر برادرز اردو بازار لاہور)
والله تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ:۔ محمد ارشاد رضا علیمی غفرلہ دار العلوم رضویہ اشرفیہ ایتی راجوری جموں وکشمیر
٢٣/ربیع الثانی ١٤٤٥ھ مطابق ٨/نومبر ٣٠٢٣ء
الجواب صحیح :کمال احمد علیمی نظامی دار العلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی