ایک دوا کمپنی کی امدادی رقم مہیا کرانے کے بارے میں سوال

ایک دوا کمپنی کی امدادی رقم مہیا کرانے کے بارے میں سوال

حضرت مفتی صاحب السلام علیکم
کرونا مہاماری میں جان بحق ہونے والے ڈاکٹروں کے ورثا کے لیے ایک دوا کمپنی نے کچھ رقم مختص کی ہے جس کا چیک متوفی ڈاکٹر کی اہلیہ کے نام بنتا ہے، اہلیہ کے ذندہ نہ ہونے کی صورت میں اولاد میں سے جو نامنی (Nomny)بنتا ہے اسی کے نام یہ چیک بن جاتا ہے سوال یہ ہے کہ اولاد میں سے جس کے نام یہ چیک بنا ہے ساری رقم اسی کی ہوگی یا متوفی ڈاکٹر کی تمام اولاد (ذکور و اناث) کو اس میں سے حصہ ملے گا شریعت کی روشنی میں جواب دیں۔
المستفتی عبداللہ محمد آصف گھوسی

الجوابــــــــــــــــــــــــــ

اگر کمپنی کے اصل مالکان سے معلوم کیا جاسکتا ہو کہ وہ لوگ یہ رقم شخص معین کو دیتے ہیں یا میت کے جملہ عیال کے مشترکہ اخراجات کے لیے دیتے ہیں تو اس کے مطابق عمل کیا جائے، کیوں کہ دینے والا دینے کے بارے میں زیادہ جانتا ہے ۔ فقہائے کرام نے جا بجا دافع (دینے والے) کی نیت کے معتبر ہونے کی صراحت فرمائی ہے۔

بہارِ شریعت میں ہے:
"تقریبات مثلاً بسم ﷲ کے موقع پر اور شادی کے موقع پر طرح طرح کے ہدایا آتے ہیں اور وہ چیزیں کس کے لیے ہیں اس کے متعلق جو عرف ہواُس پر عمل کیا جائے اور اگر بھیجنے والے نے تصریح کردی ہے تو یہ سب سے بڑھ کر ہے۔”
(بہارِ شریعت جلد ٣ح١۴ص٨٠)
اسی میں ہے:
"ایک شخص پردیس سے آیا اور جس کے یہاں اوترا اُس کو کچھ تحائف دیے اور یہ کہا کہ اس کو اپنے گھر والوں میں تقسیم کردو اور خود بھی لے لو اُس سے دریافت کرنا چاہیے کہ کیا چیز کسے دی جائے”
(بہارِ شریعت جلد ٣ح ١۴ ص٨١)
اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں:
"ان مسائل میں اصل کلی یہ ہے کہ جوشخص اپنے مال سے کسی کو کچھ دے اگر دیتے وقت تصریح ہوکہ یہ دینا فلاں وجہ پر ہے مثلاً ہبہ یا قرض یا ادائی دین ہے جب توآپ ہی وہی وجہ متعین ہوگی اور اگر یہ کچھ ظاہر نہ کیا جائے تو دینے والے کا قول معتبر ہے کہ وہ اپنی نیت سے خوب آگاہ ہے اگر اپنی نافع نیت بتائے گا مثلاً کہے میں نے قرضاً دیا قرض میں دیا ہبہ مقصود نہ تھا تو اس کا قو ل قسم کے ساتھ مان لیا جائے گا اور جو اس کے خلاف کا مدعی ہو وہ محتاج اقامت بینہ ہوگا مگر جبکہ قرائن ودلائل عرف سے اس کا یہ قول خلاف ظاہر ہو تو نہ مانیں گے اور اسی کو اقامتِ بینہ کی تکلیف دیں گے بکثرت مسائل اسی اصل پر متفرع ہیں،مداینات العقود الدریۃ میں بزازیہ سے ہے:القول قول الدافع لانہ اعلم بجھۃ الدفع”۔
(فتاوی رضویہ ج٦ص٣٢۴ )

اور اگر یہ نہ معلوم کیا جا سکے تو حسبِ بیانِ سائل جب دوا کمپنی نے وہ رقم مرنے والے کے وارثوں کے لیے مختص کی ہے اور ظاہر بھی یہی ہے کمپنی یہ رقم مرنے والے کے زیر کفالت تمام اشخاص و افراد کے مشترکہ اخراجات کے لیے دیتی ہےتو چیک خواہ مرنے والے کی بیوی کے نام بنے یا کسی دوسرے نامنی کے نام بنے ساری رقم بیوی یا نامنی کی نہیں ہوگی، ، لہذا اگرچہ وہ رقم مالکانِ کمپنی کے خالص حربی کفار سے ہونے کے سبب مالِ مباح ہو کمپنی کی منشا کے خلاف کسی ایک کا اس رقم کو اپنے لیے خاص کرلینا غدر اور دھوکا ہوگا اور شریعتِ طاہرہ کی رو سے حربی کے مال میں بھی دھوکہ کی گنجائش نہیں ہے۔ کما نصوا علیہ فی غیر موضع۔

ھذا ما ظھر لی واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔

کتبہ: محمد نظام الدین قادری، خادم درس و افتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی، یوپی
١١/جمادی الآخرہ ١۴۴٣ھ//١۵/جنوری٢٠٢٢ء

Leave a Reply