دلالی پر کمیشن لینا کیسا ہے؟
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں ۔ کہ زید ایک بروکر ہے جو دوسروں کی زمین کو بیچنے اور خریدنے کا کام کرتا ہے، اور زمین بیچنے والے سے اس کی زمین کو 200000 بیس لاکھ میں سودا کرتا ہے، حالاںکہ اس زمین کی قیمت 180000 لاکھ ہے دولاکھ کمیشن کے طور پر لیتا ہے، جس کا علم خریدنے والے کو نہیں ہوتا، البتہ بیچنے والے کو ہوتا ہے۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ زید جو کہ جھوٹ بول کر کسی کو زیادہ قیمت میں زمین دلواتا ہے، اور دوسرے کی زمین کا خود کو مالک بتا کر لوگوں سے زائد رقم وصول کرتا ہے اس پر شریعت کا کیا حکم ہے؟ مدلل جواب عنایت فرما کر عند اللہ ماجور ہوں ۔
المستفتی: گجرات
الجوابــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اگر زید اصل مالکِ زمین سے خود زمین خرید لیتا ہو اور پھر کسی سے نفع لے کر فروخت کرتا ہو جیسا کہ سوال میں زید کے لیے "خریدنے اور بیچنے” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے تو اس کا نفع لینا جائز ہے ۔ البتہ اس زمین کی خریداری کا دام زیادہ بتاکر بیچنا فریب ہے اور فریب دینا حرام یے۔ نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "من غشنا فلیس منا” (جامع الترمذی: کتاب البیوع) یعنی: جو ہم کسی کو فریب دے تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
یوں ہی زیادہ دام بتانا جھوٹ ہے اور جھوٹ گناہ کبیرہ ہے۔حدیث شریف میں ہے: اذا کذب العبد تباعد عنہ الملک من نتن ما جاء منہ"(جامع الترمذی) یعنی جب کوئی جھوٹ بولتا ہے تو اس جھوٹ کی بدبو سے فرشتے ایک میل دور ہٹ جاتے ہیں ۔
اور اگر زید کی حیثیت محض ایک دلال کی ہے جو اصل مالک زمین سے زمین خریدتا نہیں ہے لیکن خریدار پر یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ زمین اس نے بیس لاکھ میں خریدی ہے ۔
تب بھی اس طریقہ کار میں دھوکہ اور جھوٹ کی خرابی موجود ہے۔ پھر اب اگر زید بغیر دوڑ دھوپ کیے محض بیٹھے بیٹھے کسی خریدار سے سودا طے کراکے اصل مالک زمین کی رضا مندی سے دو لاکھ روہیہ وصول کرتا ہے تو یہ روپیہ اس کے لیے حلال نہیں ہے، کیوں کہ محض بات چیت یا کسی کو مشورہ دے کر کوئی چیز فروخت کرانے کی کوئی اجرت نہیں ہوتی ہے۔ لیکن اگر زید خریدار تلاش کرنے اور اس سے فروخت کرانے میں وقت صرف کرتا ہے اور دوڑ دھوپ کرتا ہے تو اتنی دوڑ دھوپ کی جو واجبی اجرت (اجرتِ مثل)ہوتی ہے صرف اتنی ہی اجرت کا حق دار ہوگا۔ اور اگر اتفاق سے طے شدہ اجرت، واجبی اجرت سے کم ہو تو واجبی اجرت کا بھی حق دار نہیں ہوگا بلکہ طے شدہ اجرت ہی کا حق دار ہوگا، لیکن فریب دینے اور جھوٹ بولنے کا وبال بہر حال اس کے سر پر رہے گا ۔
امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ سے سوال ہوا کہ: "زید کے کارندہ نے عمرو سے وعدہ کیا کہ جائداد آپ کی زید سے بکوادوں گا مگر مجھے محنتانہ دیجئے گا، اس نے اقرار کیا، اور زید کو بھی اس کا حال معلوم ہے، کارندہ مذکور نے اس کی بیع میں بہت کوشش کی، چنانچہ بیع تام ہوگئی، اور مشتری کو دھوکا بھی کچھ نہ دیا، یہ اُجرت جائز ہے یا ناجائز ہے؟
تو آپ نے اس سوال کے جواب میں تحریر فرمایا:
"اگر کارندہ نے اس بارہ میں جو محنت وکوشش کی وہ اپنے آقا کی طرف سے تھی بائع کے لئے کوئی دوا دوش نہ کی، اگر چہ بعض زبانی باتیں اس کی طرف سے بھی کی ہوں، مثلاً آقا کو مشورہ دیا کہ یہ چیز اچھی ہے خرید لینی چاہئے یا اس میں آپ کا نقصان نہیں اور مجھے اتنے روپے مل جائیں گے، اس نے خرید لی جب تو یہ شخص عمرو بائع سے کسی اُجرت کا مستحق نہیں کہ اجرت آنے جانے محنت کرنے کی ہوتی ہے نہ بیٹھے بیٹھے، دو چار باتیں کہنے، صلاح بتانے مشورہ دینے کی۔ ردالمحتار میں بزازیہ وولوالجیہ سے ہے:
"الدلالۃ والاشارۃ لیست بعمل یستحق بہ الاجر، وان قال لرجل بعینہ ان دللتنی علی کذا فلک کذا، ان مشی لہ فدلہ فلہ اجر المثل للمشی لاجلہ، لان ذٰلک عمل یستحق بعقد الاجارۃ ۔”
کتاب غمز العیون میں خزانۃ الاکمل سے ہے:
"اما لو دلہ بالکلام فلا شیئ لہ ۔”
اور اگر بائع کی طرف سے محنت وکوشش ودوا دوش میں اپنا زمانہ صرف کیا تو صرف اجر مثل کا مستحق ہوگا، یعنی ایسے کام اتنی سعی پر جو مزدوری ہوتی ہے اس سے زائد نہ پائے گا اگر چہ بائع سے قرارداد کتنے ہی زیادہ کا ہو، اور اگر قرارداد اجر مثل سے کم کا ہو تو کم ہی دلائیں گے کہ سقوطِ زیادت پر خود راضی ہوچکا،خانیہ میں ہے:
"ان کان الدلال الاول عرض و تعنٰی وذھب فی ذٰلک روزگارہ کان لہ اجر مثلہ بقدر عنائہ وعملہ”
اشباہ میں ہے:
"بعہ لی بکذا ولک کذا فباع فلہ اجر المثل "
حموی میں ہے:
"ای ولایتجاوزبہ ماسمی وکذالو قال اشترلی کما فی البزازیۃ، وعلی قیاس ھذا السماسرۃ والدلالین الواجب اجر المثل کما فی الولوالجیۃ”
ردالمحتار میں تاتارخانیہ سے ہے:
"فی الدلال والسمسار یجب اجرالمثل و ما تواضعوا علیہ ان فی کل عشرۃ دنانیر کذا فذلک حرام علیہم” (فتاوی رضویہ قدیم ج٨ ص١۴٦ ، ١۴٧)۔
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔
مفتی محمد نظام الدین قادری
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ
خادم درس وافتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی۔ بستی۔٢٧/ربیع الاول ١۴۴٣ھ//٣/نومبر ٢٠٢١ء