دلالی کے جائز وناجائز ہونے کی تمام صورتیں ۔مفتی نظام الدین صدر شعبہ افتا جامعہ اشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ ۔
دکان ومکان وغیرہ چیزیں بکوانے پر یا کسٹمر گاہک لانے پر دلالی وصول کی جاتی ہے جس کو کمیشن ایجنٹ بھی کہتے ہیں کبھی پرسنٹیج پر ہوتا ہے فیصد پر تو کبھی کوئی رقم مقرر ہوتی ہے تو کبھی بیچنے والا اپنی چیز کی قیمت بتا دیتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ اس پر جو زیادہ رقم آئے وہ تمہاری ہے یا کبھی کچھ طے نہیں ہوتا تو دلال کو خوشی سے کچھ دے دیا جاتا ہے تو یہ سب صورتیں جائز ہیں یا نہیں ہیں؟
الجواب : یہ کئی باتیں ہو گئیں اگر دلال کچھ کام کرتا ہے کہ کسی کی زمین اور کسی کا سامان بیچنے کے لیے فریقین کے درمیان وہ دوڑ دھوپ کرتا ہے یا موبائل سے رابطہ کر کے، کوشش کر کے لوگوں کو تیار کرتا ہے کوئی دھوکہ فریب نہیں کرتا تو ایسے دلال کے لیے ہم ان مسائل کی تفصیل بتائیں گے ۔
اگر ایسے دلال کی کوئی مزدوری طے نہیں ہے اور وہاں کے عرف میں بھی ایسے دلال کو مزدوری دینے کی کوئی بات نہیں ہوتی ہے اور اس نے سامان کوشش کر کر ا کر کے بچوا دیا بعد میں فریقین نے یا فریقین میں سے کسی نے بھی اپنی خوشی سے کچھ دے دیا تو یہ اس کے لیے نذرانہ ہے اور تحفہ ہے۔ نذرانہ اور تحفہ دینا بھی جائز اور قبول کرنا بھی جائز ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ہاں اگر وہاں پہ عرفا دینا لینا رائج ہو کہ جو ایسا کام کرتا ہے اس کو ضرور دیا جاتا ہے اس کا حق سمجھ کر اور وہ اپنا حق سمجھ کر لیتا ہے تب اس کی حیثیت مزدوری کی ہے اجرت کی ہے۔ اجرت کا قانون یہ ہے کہ جو بھی اجرت ہو وہ فریقین کو معلوم ہونی چاہیے اور متعین ہونی چاہیے، کتنی اجرت ہے یا کتنے روپے ہے۔چاہے پرسنٹ کے لحاظ سے معلوم ہو یا کیش کے لحاظ سے معلوم ہو کہ مثلا یہ زمین فروخت کرا دو تو تمہیںد وہزار روپے ہم اجرت دیں گے تو اجرت معلوم اور متعین ہے یا یہ بتا دیا جائے کہ ایک لاکھ پر تم کود ہزار روپے دیے جائیں گے تو اس طور پہ معلوم ومتعین ہو تو اگر پرسنٹ کے لحاظ سے مزدوری معلوم ہو متعین ہو تو بھی جائز ہے اور روپے کی شکل میں معلوم و متعین ہو تو بھی جائز ہے۔ اور مجہول ہو معلوم یا متعین نہ ہو تو ایسی اجرت ایسا اجارہ ناجائز اور فاسد ہے اور اس کو شریعت طاہرہ منع کرتی ہے کہ ایسا اجارہ ہرگز نہ کیا جائے۔ لہذا اگر اس طرح کا معاملہ طے ہوا کہ تم ہماری یہ زمین فروخت کرا دو مثلا 10 لاکھ میں ہمارے نزدیک زمین کی قیمت 10 لاکھ روپے ہے ہم کو تم 10 لاکھ روپے دے دینا اور اس کے اوپر تم جتنے میں چاہو بیچو 10 لاکھ کے اوپر جو کچھ ہوگا وہ تمہارا ہے اور 10 لاکھ میرا ہے تو 10 لاکھ سے اوپر کتنا پائے گا اور کتنے میں بیچے گا وہ کچھ معلوم نہیں ہے، وہ اپنے خریدار کا استحصال بھی کر سکتا ہے پھر مزدوری کتنی ہوگی وہ معلوم ومتعین بھی نہیں ہے مجہول ہے تو ایسا جاجارہ جس میں مزدوری معلوم نہ ہو بلکہ مجہول ہو ایسا اجارہ جس کی وجہ سے ایک فریق دوسرے فریق کا استحصال کریں تو یہ اجارہ ناجائز اور گناہ ہوتا ہے ناجائز اور فاسد ہوتا ہے اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اگر آپ لوگ ایسا کوئی معاملہ کرتے ہیں تو مزدوری کو متعین کر دیجئے چاہے روپوں کی شکل میں یا فیصدکی شکل میں دونوں میں سے کسی طور پر متعین ہونا چاہیے اور اگر وہاں کے عرف میں مزدوری کا لین دین نہیں ہوتا ہے اور بعد میں آپ نے نذرانےکے طور پر پیش کر دیا تو اس نذرانہ، تحفہ، ہدیہ کو دینا بھی جائز اور لینا بھی جائز۔ سوال میں جتنی باتیں آئی ہیں سارے شکوں کا جواب الحمدللہ ہو گیا۔
کتبہ :مفتی نظام الدین صدر شعبہ افتا جامعہ اشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ ۔