مونچھیں بڑی رکھنا اور چھوٹی نہ کرنا کیسا ہے ؟
سائل : سمیع اللہ نیازی شہر اباخیل ضلع میانوالی
بسمہ تعالیٰ
الجواب بعون الملک الوھّاب
اللھم ھدایۃ الحق و الصواب
مونچھوں کو پست کرنا (کم کرنا) سنت ہے اور اتنی پست کرے کہ بھنووں کی طرح ہو جائیں یعنی اوپر والے ہونٹ کے اوپری کنارے سے نیچے نہ لٹکیں۔
اور مونچھیں اتنی بڑی رکھنا کہ منہ میں آئیں، یہ حرام و گناہ ہے اور یہ مشرکوں، مجوسیوں، یہودیوں اور عیسائیوں کا طریقہ ہے، البتہ اگر صرف مونچھوں کے دونوں کناروں کے بال بڑے ہوں تو کوئی حرج نہیں کہ بعض اسلاف سے اسی طرح کی مونچھیں رکھنا ثابت ہے۔
اور مونچھوں کو بالکل مونڈوانا اگرچہ ایک روایت میں آیا ہے لیکن اس میں علماء کرام کا اختلاف ہے، اس لئے بالکل منڈوانے سے بچنا چاہیے۔
چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
"جُزُّوا الشوارِبَ و اَرْخُوا اللحی۔ خالفوا المجوسَ”
یعنی مونچھیں کترو اور داڑھیاں چھوڑو اور مجوس کی مخالفت کرو۔
(صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ باب خصال الفطرۃ، صفحہ 115، رقم الحدیث : 55- (260)، دارالکتب العلمیہ بیروت، لبنان)
حضرت زید بن أرقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"من لم یأخذ من شاربہ فلیس منا”
یعنی جو شخص اپنی مونچھ میں سے نہ لے (یعنی اپنی مونچھیں نہ ترشوائے) تو وہ ہم میں سے نہیں (یعنی ہمارے طریقے کے خلاف ہے)۔
(سنن ترمذي، کتاب الأدب، باب ما جاء في قص الشارب، جلد 4، صفحہ 349، رقم الحدیث : 2769، دارالفکر بیروت)
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"مونچھیں اتنی بڑھانا کہ مونہہ میں آئیں، حرام و گناہ و سنتِ مشرکین و مجوس و یہود و نصارٰی ہے، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اعلیٰ درجے کی حدیثِ صحیح میں فرماتے ہیں : "أحفوا الشوارب و أعفوا اللحٰی و لاتشبھوا بالیھود رواہ الامام الطحاوی عن أنس بن مالک و لفظ مسلم عن أبی ھریرة رضی اللہ تعالی عنہ : "جزوا الشوارب و أرخوا اللحٰی و خالفو المجوس” مونچھیں کتر کر خوب پست کرو اور داڑھیاں بڑھاؤ، یہودیوں اور مجوسیوں کی صورت نہ بنو۔”
(شرح معانی الآثار، کتاب الکراہیۃ، باب حلق الشارب، جلد 2، صفحہ 367، ایچ ایم سعید کمپنی کراچی، صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ باب خصال الفطرۃ، جلد 1، صفحہ 129، قدیمی کتب خانہ کراچی)
(السنیۃ الانیفۃ فی فتاویٰ افریقہ، صفحہ 17، مکتبہ نوریہ گلبرگ اے فیصل آباد، فتاوی رضویہ، جلد 22، صفحہ 684، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
فتاوی عالمگیری میں ہے :
"ویاخذ من شاربہ حتی یصیر مثل الحاجب کذا فی الغیاثیۃ، وکان بعض السلف یترک سبالیہ و ھما اطراف الشوارب کذا فی الغرائب، ذکر الطحاوی فی شرح الآثار ان قص الشارب حسن و تقصیرہ ان یؤخذ حتی ینقص من الاوطار و ھو الطرف الاعلی من الشفۃ العلیا قال والحلق سنۃ و ھو احسن من القص و ھذا قول ابی حنیفۃ و صاحبیہ رحمھم اللہ تعالیٰ کذا فی محیط السرخسی”
یعنی اور وہ اپنی مونچھ میں سے لے (یعنی مونچھ کتروائے) یہاں تک کہ وہ ابرو کی مثل ہوجائے، ایسا ہی غیاثیہ میں ہے۔ اور بعض سلف اپنی مونچھوں کے کنارے چھوڑ دیتے تھے، ایسے ہی غرائب میں ہے۔ شرح الآثار میں امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے کہ بے شک مونچھ کو کتروانا اچھا ہے اور اس کو کتروانے کی صورت یہ ہو کہ وہ اتنی کتروادے کہ وہ اوطار سے کم ہوجائے اور وہ (اوطار) اوپر والے ہونٹ کا اوپری کنارا (بالائی حصہ) ہے۔ (امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے) فرمایا : مونڈانا سنت ہے اور یہ کتروانے سے زیادہ اچھا ہے اور یہ امام اعظم ابوحنیفہ اور ان کے صاحبین (امام ابو یوسف اور امام محمد) رحمۃ اللہ علیھم کا قول ہے، ایسے ہی محیط سرخسی میں ہے۔
(فتاوی عالمگیری، کتاب الکراھیۃ، الباب التاسع عشر في الختان، جلد 5، صفحہ 358، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
علامہ علاءالدین محمد بن علی حصکفی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"و فیہ حلق الشارب بدعۃ، و قیل سنۃ”
یعنی اور اس (مجتبیٰ) میں ہے کہ مونچھ کو مونڈانا بدعت ہے، اور بعض نے کہا کہ (مونچھ کو مونڈانا) سنت ہے۔
عمدۃ المحققین علامہ محمد امین بن عمر بن عبدالعزیز عابدین شامی دمشقی حنفی رحمۃ اللہ علیہ، علامہ حصکفی رحمۃ اللہ علیہ کے قول "و قیل سنۃ” کے تحت تحریر فرماتے ہیں :
"مشی علیہ فی الملتقی، وعبارۃ المجتبیٰ بعد ما رمز للطحاوی : حلقہ سنۃ، ونسبہ الی ابی حنیفۃ و صاحبیہ، والقص منہ حتی یوازی الحرف الاعلی من الشفۃ العلیا سنۃ بالاجماع”
یعنی ملتقیٰ میں (بھی) اس پر چلے ہیں (یعنی مونچھیں مونڈانے کو سنت قرار دیا ہے)، مجتبیٰ کی عبارت کی اس کے بعد ہے جہاں انہوں نے امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کے لئے اشارہ کیا (علامتی نشان کے ساتھ لکھا) کہ : مونچھ کو مونڈانا سنت ہے اور امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو امام اعظم ابوحنیفہ اور ان کے صاحبین (یعنی امام ابو یوسف اور امام محمد)
رحمۃ اللہ علیھم کی جانب منسوب کیا ہے، اور مونچھ کو کتروانا یہاں تک کہ وہ اوپر والے ہونٹ کے اوپری کنارے کے برابر ہو جائے، بالاجماع سنت ہے۔
(ردالمحتار علی الدرالمختار، کتاب الحظر و الإباحۃ، فصل في البیع، جلد 9، صفحہ 671، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
”لبوں کی نسبت یہ حکم ہے کہ لبیں پست کرو کہ نہ ہونے کے قریب ہوں، البتہ منڈانا نہ چاہئے، اس میں علماء کو اختلاف ہے۔“
(فتاوی رضویہ، جلد 22، صفحہ 606، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"مونچھوں کو کم کرنا سنت ہے اتنی کم کرے کہ ابرو کی مثل ہو جائیں یعنی اتنی کم ہوں کہ اوپر والے ہونٹ کے بالائی حصہ سے نہ لٹکیں اور ایک روایت میں مونڈانا آیا ہے۔ (درمختار، ردالمحتار)
مونچھوں کے دونوں کناروں کے بال بڑے بڑے ہوں تو حرج نہیں بعض سلف کی مونچھیں اس قسم کی تھیں۔ (عالمگیری)
(بہارشریعت، حجامت بنوانا اور ناخن ترشوانا، جلد 3، حصہ 16، صفحہ 585، مکتبۃ المدینہ کراچی)
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ والہ وسلم
کتبہ : مفتی ابواسیدعبیدرضامدنی