کرکٹ میچ کی کامیابی کیلئے دعا کرنا کیسا
الاستفتاء کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ فی زمانہ مروجہ انٹرنیشنل کرکٹ میچز میں قومی ٹیم کی کامیابی کے لئے دعا کرنا کیسا ہے؟ خاص طور پر ورلڈ کپ اور سیریز وغیرہ جس میں فتح حاصل کرنے سے ہمارے ملک کی عزت اور وقار بھی بڑھتا ہے؟
بسم ﷲ الرحمن الرحیم
الجواب اللہم ہدایۃ الحق والصواب
حضورتاجدارختم نبوتﷺنے دعا کو عبادت کا مغز قرار دیا ہے
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:الدُّعَاء مُخُّ العِبَادَۃِ.
ترجمہ :حضرت سیدنا انس رضی ﷲعنہ سے روایت ہے حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ارشاد فرمایا: دعا عبادت کا مغز ہے.
سنن الترمذی:محمد بن عیسی بن سَوْرۃ بن موسی بن الضحاک، الترمذی، أبو عیسی (۵:۳۱۶)
یہ اہم کام جائز کاموں کے لئے جائز و مستحسن بلکہ حکم قرآنی ہے اور ناجائز کاموں کے لئے ناجائز وسخت حرام۔فی زمانہ رائج کرکٹ میچ بہت ساری غیر شرعی قباحتوںکا مجموعہ بن چکا ہے لہذا اس کے لئے دعا کرنا سخت ناجائز ہے۔ہمیں تعجب ہے کہ یہ پوچھا گیا کہ کرکٹ میچ کے لئے دعا کرنا کیسا ہے۔فی الحقیقت سوال تو یہ ہونا چاہئے کہ کرکٹ میچ کے لئے دعا کرنے میں کیا کیا نحوستیں اور وبال ہیں؟
اولاًمروجہ کرکٹ میچ محرمات کا مجموعہ ہے۔ٹی وی پر کوئی بھی کرکٹ میچ دیکھنا،بدنگاہی اور حرام دیکھے بغیر ممکن نہیں نہ چاہتے ہوئے بھی ٹی وی اسکرین پر بار بار کرکٹ میچ دیکھنے والے اور دیکھنے والیاں اپنی آنکھوں کو حرام سے بھرتے ہیں اور جہنم میں جانے کا سامان کرتے ہیں کیونکہ شریعت مطہرہ میں نامحرم کو دیکھنا سخت گناہ ہے۔صرف ضرورت شرعیہ کے وقت پہلی نگاہ کی اجازت ہے ورنہ شدید ممانعت ہے کہ اﷲرب العزت نے واضح طور پر قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے۔
مسلمان مردوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔یہ ان کے لئے بہت ستھرا ہے بے شک اﷲ تعالی کو انکے کاموں کی خبر ہے اور مسلمان عورتوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں۔(پارہ ۱۸،سورہ نور،آیت۳۱)
حدیث پاک میں ہے
عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: بَلَغَنِی أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَال:لَعَنَ اللہُ النَّاظِرَ وَالْمَنْظُورَ إِلَیْہِ
ترجمہ :حضرت سیدناامام حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایاکہ اﷲ تعالی لعنت کرے (بلا ضرورت)اجنبی عورت کو دیکھنے والے پر اور اس (عورت)پر جو (بلا ضرورت اپنے آپ کو اجنبی مرد پر ظاہر کرتے ہوئے)دیکھی جائے
(السنن الکبری:احمد بن الحسین بن علی بن موسی أبو بکر البیہقی (۷:۱۵۹)
ایمان سے کہئے!کیا کرکٹ میچ دیکھنے کے دوران ان قرآنی آیات اور احادیث پر عمل ہوسکتا ہے؟ کھیل کے دوران کیمرہ مین کی ایک ذمہ داری یہ بھی ہوتی ہے کہ تماشائیوں میں دیدہ زیب،زرق برق،چست اور کم لباس خواتین کو تلاش کرکے دکھلائے،بلکہ یہی نہیں اب تو شرم وحیاء کا جنازہ ہی اٹھ گیا کہ بعض میچوں میں ہر چوکے اور چھکے کے بعد بائونڈری لائن پر چیر لیڈرز کے نام سے نیم برہنہ خواتین رقص کرتی ہیں اور یہ حرام فعل پورے میچ کے دوران جاری رہتا ہے اور ٹی وی اسکرین پر دکھایا جاتا رہتا ہے۔گویا حرام کے دلدادہ اورا ﷲرب العزت کے قہر کو دعوت دینے والے ایک تیر میںدو شکار کے خواہش مند ہیں۔
کرکٹ بھی دیکھیں اور رقص کی محفل بھی،الامان الحفیظ اسی پر بس نہیں،یہی کرکٹ میچ اگر بیرونی ممالک میں ہو مثلا آسٹریلیا،نیوزی لینڈ، سائوتھ افریقہ،تو وہاں کے مادر پدر آزادی کے متوالے سارے ننگے ایک ہی حمام میں ہونے کا منظر پیش کرتے ہوئے سن باتھ کے نام پر مرد و عورت فقط شرم گاہ کوچھپاکر لیٹے رہتے ہیں اور ٹی وی اسکرین پر یہ واہیات مناظر بار بار بلکہ خصوصاً دکھائے جاتے ہیں۔
کیا خوب قیامت کا ہے کوئی دن اور ہے
جو کمی رہ جاتی ہے وہ میچ کے دوران چلتے ہوئے اشتہارات کے ذریعے پوری کردی جاتی ہے۔ موبائل کا اشتہار ہو خواہ کھانے پینے کا حتیٰ کہ مردانہ ملبوسات کے اشتہار میں بھی نیم برہنہ،چست لباس اور جسم کی نمائش کرنے والی خواتین جزولاینفک ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ کرکٹ میچ دکھانے والے کرکٹ میچ کے ساتھ ساتھ لوگوں کو بے حیاء بنانے کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چاہتے۔ہمیں حیرت ہے ان مسلمانوں پر جو اپنی ماں، بہن اور بیٹیوں کے ساتھ بیٹھ کر یہ تماشا دیکھتے ہیں پھر پوچھتے ہیں مولانا صاحب!آج کون جیتے گا؟ دعا کرنا کیسا ہے؟
العیاذ باﷲ تعالیٰ من ذلک
ثانیاً:کرکٹ میچ کے دوران اذانوں کی حرمت اور ادب کا لحاظ قطعاً نہیں رکھا جاتا۔اکثر اذانوں کے دوران گانے باجے بج رہے ہوتے ہیں اور تماشائی اپنے شوروغل میں مصروف ہوتے ہیں۔موذن حی علی الصلوٰۃ اور حی علی الفلاح کی کیف آور اور نجات دہندہ صدائیں دے رہا ہوتا ہے مگر گرائونڈ میں موجود غفلت کا مارا تماشائی اور لالچ کاشیدائی کھلاڑی تو اپنی زیست کا کیف اور نجات کا راستہ کرکٹ ہی کو سمجھ بیٹھا ہے۔تو بھلا کیوں صلوٰۃ وفلاح پر لبیک کہے گا؟ حالانکہ اذان کی بے ادبی تو ایمان کے صلب کی وجہ بن سکتی ہے۔
مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمتہ ﷲالقوی نقل کرتے ہیں جو اذان کے وقت باتوں میں مشغول رہے،اس کے معاذا ﷲعزوجل خاتمہ برا ہونے کا خوف ہے-(بہار شریعت از مولانامفتی امجدعلی اعظمی ( ۱: ۳)
آپ کا سوال تھا کہ کرکٹ میچ کے لئے دعا کرنا کیسا ہے،
ہمارا سوال ہے کیا ان نماز بھلانے والوں کے لئے بھی دعا کرو گے؟ جس کھیل میں برہنگی، رقص، گانے اور باجے ہیں۔
کیا اس کے لئے دعا کروگے؟
ثالثاً:کچھ بعید نہیں کہ کوئی سخت دل یہ بھی کہہ دے کہ ہم صرف کمنٹری سنتے ہیں،جب کوئی ایسا منظر آتا ہے تو ہم آنکھیں بند کرلیتے ہیںتو جواباً گزارش ہے کہ کس تماشے کی کمنٹری سنتے ہیں جسمیں علی الاعلان،اجتماعی طور پر نمازوں کو قضا کیا جاتا ہے۔وہ نماز جسے مومن اور کافر کا فرق قرار دیا گیا جیسا کہ حضرت جابر رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ارشاد فرمایا:
عَنْ جَابِرٍ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:بَیْنَ الکُفْرِ وَالإِیمَانِ تَرْکُ الصَّلاَۃِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناجابررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا:کفر اور ایمان کے درمیان فرق کرنے والی چیز نماز ہے-
(سنن الترمذی:محمد بن عیسی بن سَوْرۃ بن موسی بن الضحاک، الترمذی، أبو عیسی (۴:۳۰۹)
اب مسلمانوں میں نماز ناپید ہے۔کھلاڑی اور تماشائی سب نمازیں قضاء کرکے اجتماعی طور پر رب کی نافرمانی کرتے ہیں۔دشمنان اسلام بھی خوب خوش ہوتے ہوں گے کہ مسلمانوں کو ٹھیک کام پرلگایا ہے کہ مسجدیں ویران اور اسٹیڈیم آباد،اذانوں کا ادب نہ نمازوں کی پرواہ، ٹھیک ہی کہا ہے کسی نے۔
کیا ہنسی آتی ہے مجھ کو حضرت انسان پر فعل بد خود ہی کریں، لعنت کریں شیطان پر
رابعاًً:مروجہ کرکٹ میچ عوام کو دھوکا دینے کا نام ہے۔ ابتداء سے ہنوز ہر سال بڑے بڑے کھلاڑی، اداروں اور کاروباری حضرات کے سٹہ بازی میں ملوث ہونے اور سزا پانے کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ کوئی ملک بھی کرکٹ پر سٹہ لگانے والوں اور کھلاڑیوں کے خریدنے والوں سے خالی نہیں۔ عوام یہ سمجھتی ہے کہ جیت سے ملک کا نام روشن ہوگا جبکہ ان کی امیدوں کا مرکز ہار کے لئے بک چکا ہوتا ہے۔ بعض ملکوں میں اسے قانونی شکل دی جاچکی ہے۔ کیا جوا اور سٹہ کھیلنے والوں کے لئے دعا کی جاتی ہے؟دعا تو ان کی ہدایت کی ہونی چاہئے نہ کہ ان کے حرام کام میں جیت کی!
خامساً:کرکٹ میچ کے نام پر اپنی زندگی کے نہایت قیمتی اوقات کو بے دریغ ضائع کیاجاتا ہے۔ قرآن کریم تو کہے بے شک انسان خسارے میں ہے سوائے ایمان اور نیک اعمال والوں کے مگر کرکٹ میچ دیکھنے اور کھیلنے والے اس خسارے کی فکر اور نیک اعمال سے یکسر غافل نظر آتے ہیں۔جو لوگ ون ڈے میچ کی خاطر بلا مبالغہ سات سے آٹھ گھنٹے ضائع کردیتے ہیں۔انہی لوگوں کو تراویح میں ایک گھنٹہ قرآن سننا بھی گراں محسوس ہوتا ہے۔یہ وہ تلخ حقیقت ہے جس کا کرکٹ کھیلنے اور دیکھنے والوں نے تصور نہیں کیا۔یہ ڈریں اس دن سے جب نامہ اعمال ان کے سامنے ہوگا اور کہا جائے گا
{اِقْرَاْ کِتٰبَکَ کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا }(سورۃ بنی اسرائیل :۱۴)
ترجمہ کنزالایمان:فرمایا جائے گا کہ اپنا نامہ اعمال پڑھ آج تو خود ہی اپنا حساب کرنے کو بہت ہے ۔
اس دن ان سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ اپنے ملک سے کھیلتے ہوئے کتنے رنز بنائے، کتنے چوکے لگائے،کتنے کھلاڑی آئوٹ کئے،کس ٹیم نے ورلڈ کپ جیتا اور کس نے ایشیا کپ بلکہ قیامت کے دن کوئی شخص اپنی جگہ سے ہل بھی نہ سکے گا جب تک پانچ سوالوں کا جواب نہ دے دے۔
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لاَ تَزُولُ قَدَمُ ابْنِ آدَمَ یَوْمَ القِیَامَۃِ مِنْ عِنْدِ رَبِّہِ حَتَّی یُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ، عَنْ عُمُرِہِ فِیمَ أَفْنَاہُ، وَعَنْ شَبَابِہِ فِیمَ أَبْلاَہُ، وَمَالِہِ مِنْ أَیْنَ اکْتَسَبَہُ وَفِیمَ أَنْفَقَہُ، وَمَاذَا عَمِلَ فِیمَا عَلِمَ.
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ارشاد فرمایا :بروز قیامت ابن آدم اپنے رب کی بارگاہ سے قدم نہ ہٹا سکے گا حتی کہ پانچ چیزوں کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے(۱)…اپنی عمر کن کاموں میں گزاری؟(۲)اپنی جوانی کس کام میں گزاری؟(۳)…مال کہاں سے کمایا؟(۴)…اور کہاں خرچ کیا؟(۵)…جو علم سیکھا اس پر کہاں تک عمل کیا؟
(سنن الترمذی:محمد بن عیسی بن سَوْرۃ بن موسی بن الضحاک، الترمذی، أبو عیسی (۴:۱۹۰)
آپ کا کیا جواب ہوگا؟ کرکٹ دیکھ کر اور اس کے لئے دعا کرتے ہوئے جوانی گزاری۔نہیں نہیں۔اس تماشے کے دیکھنے سے بھی توبہ کریں،کیا خبر یہ تماشا دیکھتے دیکھتے موت آجائے تو رب کو کیا منہ دکھائو گے کیونکہ جو حرام دیکھتے یا کرتے ہوئے فوت ہوجائے،کل بروز قیامت اسی حال میں اٹھے گا۔
عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ مَاتَ عَلَی شَیْء ٍ بَعَثَہُ اللَّہُ عَلَیْہِ
ترجمہ :حضرت سیدناجابررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا:جو جس حال میں مرے گاا ﷲتعالیٰ اسی حال پر اسے اٹھائے گا
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل (۲۲:۳۷۱)
دعا کا مقصد تو دنیا اور آخرت کی کامیابی،مشکلات کا حل، دنیا اور آخرت کے معاملات میں آسانی ہوتی ہے۔ کرکٹ میچ کے لئے دعا کرنے میں آپ کو حاصل کیا ہوگا؟آپ کو نہ دنیا کا فائدہ نہ آخرت کا فائدہ؟ یہ تو محض اور محض لایعنی کام ہے۔حدیث پاک میں ہے:
عَنْ عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مِنْ حُسْنِ إِسْلاَمِ الْمَرْء ِ تَرْکَہُ مَا لاَ یَعْنِیہِ.
ترجمہ :حضرت سیدناامام زین العابدین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا:بے شک بندے کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ بے فائدہ کاموں کو ترک کردے
(سنن الترمذی:محمد بن عیسی بن سَوْرۃ بن موسی بن الضحاک، الترمذی، أبو عیسی (۴:۱۳۶)
سادساً :بالفرض آپ کہیں گے کہ اس کھیل سے ملک و قوم کی بقاء اور اس کا نام و شہرت ہے تو ہم آپ کو امیر المومنین، خلیفہ ثانی، حضرت سیدناعمر رضی ﷲعنہ کاارشاد یاد دلاتے ہیں۔حضرت عمر رضی ﷲعنہ فرماتے ہیں-
إِنَّا کُنَّا أَذَلَّ قَوْمٍ فَأَعَزَّنَا اللَّہُ بِالْإِسْلَامِ فَمَہْمَا نَطْلُبُ الْعِزَّۃَ بِغَیْرِ مَا أَعَزَّنَا اللَّہُ بِہِ أَذَلَّنَا اللَّہُ
ترجمہ:بے شک ہم اقوام میں سب سے کم تر تھے تو اﷲ تعالی نے ہمیں اسلام کے ذریعے عزت بخشی تو جب ہم اسلام سے ہٹ کر کسی چیز کے ذریعے عزت حاصل کرنا چاہیں گے توا ﷲ تعالی ہمیں ذلیل کردے گا۔
(المستدرک علی الصحیحین:أبو عبد اللہ الحاکم محمد بن عبد اللہ بن محمد(۱:۱۳۰)
نیز کرکٹ سے ملک کی ترقی کا تصور بس خام خیالی ہے۔ کھلاڑیوں نے کئی فتوحات حاصل کی ہوں گی اس سے ملک میں کتنی غربت کم ہوئی؟ کتنے بے روزگاروں کو روزگار مل گیا؟ کتنا امن و سکون حاصل ہوگیا؟ اگر ملا تو صرف دکھاوے کا پیالہ یعنی ورلڈ کپ کیا ملک معاشی اور معاشرتی طور پر مستحکم ہوگیا؟ کیا قتل وغارت گری ختم ہوگئی؟ نہیں، کچھ بھی تو نہیں ملاہاں!گیا بہت کچھ، بنگلہ دیش جدا ہوگیا۔ لسانی تعصب کے سبب امن واخوت ختم ہوگیا،ملک و قوم قرض کے بار تلے دب گئے، بار بار امداد کے سوال نے ہمیںدنیا کی نظر میں بھکاری بنادیا۔کشمیر کی افسردہ صورتحال کی مثال ہی ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کیا کم ہے؟ تو ایسی جیت کس کام کی جس میں صرف ایک پیالہ جیت کر باقی سب کچھ ہار جائو۔ یہ جیت ہماری نہیں بلکہ شیطان مکار کی ہے۔حقیقی فتح اور کامیابی صرف اور صرف ا ﷲاور اس کے رسول کی اطاعت میں ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
{یُّصْلِحْ لَکُمْ اَعْمٰلَکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَمَنْ یُّطِعِ اللہَ وَ رَسُوْلَہ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا }( سورۃ الاحزاب :۷۱)
ترجمہ کنزالایمان:اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے اس نے بڑی کامیابی پائی ۔
اے میرے بھائی!دعا مانگنی ہے تو اپنے والدین کے لئے مانگ، اپنی ہدایت کے لئے مانگ،ایمان پر ثابت قدمی اور اس پر خاتمے کی مانگ،اپنے الفاظ اور دعائوں کو کرکٹ میچ کے نام پر کیوں ضائع کرتا ہے؟ ضائع ہی نہیں بلکہ کرکٹ میچ دیکھ کر لعنتوں اور نحوستوں کو پاکر کیوں رب کی رحمت سے دور ہوتا ہے۔
مذکورہ بالا حقائق ودقائق کو محبت کی آنکھ سے پڑھ پھر دل کے کانوں سے سن، تو یہی خلاصہ نکلے گا کہ کرکٹ میچ کے لئے دعا کرنا،ناجائز اور سخت حرام ہے اور ہر مسلمان کو اس سے بچنا چاہئے۔اﷲپاک ہمیں نیک عمل کی توفیق دے اور ہر برا،ناجائز اور حرام فعل کرنے،دیکھنے اور پسند کرنے سے محفوظ فرمائے۔آمین( مذکورہ فتوی بہت عرصہ پہلے ایک دوست نے واٹساپ پرارسال کیاتھامگرمفتی صاحب کانام اس میں منقول نہ تھااس لئے ان کانام درج نہیں ہوسکااللہ تعالی کی بارگاہ میں التجاء ہے کہ جن مفتی صاحب نے یہ تحریرکیاہے اللہ تعالی ان کو بہترین جزاء عطافرمائے۔)
کیاامام احمدرضاحنفی الماتریدی رحمہ اللہ تعالی کرکٹ میچ کے لئے وظیفہ بتایاکرتے تھے؟
شمع شبستان رضامیں ایک کرکٹ میچ جیتنے کاایک عمل لکھاگیاہے اوروہ امام احمدرضاحنفی الماتریدی رحمہ اللہ تعالی کی طرف منسوب ہے اس کاقصہ اقبال احمدنوری مرحوم لکھتے ہیںکہ عرصہ بیس سال کاہواکہ حاجی احمدحسن صاحب رضوی نے نجیب آباداتفاقیہ ملاقات کے دوران ایک عجیب واقعہ بیان کیاکہ جب میں بریلی شریف ہائی سکول میں پڑھ رہاتھااوروہیں بورڈنگ ہائوس میں رہتاتھااورہفتہ میں دوتین باراعلی حضرت رحمہ اللہ تعالی کی خدمت میں حاضرہواکرتاتھا، ایک مرتبہ میرٹھ کی ایک ٹیم ہرجگہ سے جیت کرفائنل میچ کھیلنے بریلی شریف آئی ، ہیڈ ماسٹرانگریز بھی ساتھ تھا، پہلے روز بریلی کی ٹیم کھیلی اورصرف تیس رنزبناکرپوری ٹیم آئوٹ ہوگئی ۔ جس کے سبب سراسیمگی پیداہوگئی اورجیتنے کاکوئی بھی امکان نہ رہا، اسی روز بعدنما زمغرب میں اورغلام جیلانی اعلی حضرت رحمہ اللہ تعالی کی خدمت میں حاضرہوئے اورساری کیفیت بیان کی ، اعلی حضرت رحمہ اللہ تعالی نے ارشادفرمایاکہ میرٹھ اوربریلی ہردوجگہ کے کھیلنے والے یہی امیدلئے ہوئے ہیں کہ ہماری جیت ہو، پھربریلی کے طلبہ کی اگرکوئی امدادکی جائے جب کہ ہردوفریق میں مسلم وغیرمسلم طلبہ موجود ہوں گے ، عرض کیا: ہاں ۔حضور!بات تویہ ہے مگرماسٹرقرب محمدصاحب کو جوسیدصاحب ہیں ، حضورانہیں خوب جانتے ہیں ۔ فرمایا: ہاں۔ عرض کیا: وہ لڑکوں کو گیندبلانہیں کھلاتے اورڈرل ماسٹربھی ہیں ، ان کی ترقی اورتنخواہ میں پندرہ روپے کااضافہ اس شرط پرقرارپائی ہے کہ بریلی والے جیت جائیں ، فرمایاکہ یہ بات قابل غورہے ۔ ارشادفرمایا: اگرمیرٹھ والوں کے سولہ رنزبنے توبریلی والوں کی جیت ہوجائے گی ؟ عرض کی : جی حضور!اس کے بعد ارشادفرمایاکہ کل صبح جب بریلی والے لڑکے کھیلنے کے لئے چلیں توان میں جومسلمان ہوں ان کو سکھادیاجائے کہ وہ بسم اللہ شریف پڑھ کرقدم اٹھائیں اورسیدھے ہاتھ کی انگلیوں پرچھنگلیاں سے شروع کریں اورکہیعص یہ پانچ حروف ہیں ، ہرحرف پڑھتے جائیں اورایک ایک انگلی بندکرتے جائیں اورپھرالٹے ہاتھ سے حمعسق یہ بھی پانچ حرف ہیں ، ہرہرحرف پڑھتے جائیں اورایک انگلی بندکرتے جائیں ، جب دونوں مٹھیاں بندہوجائیں تو تب سورۃ الفیل پڑھیں ، جب ترمیھم پڑھنے میں دسوں انگلیوں کھل جائیں پھربقیہ سورت پڑھ کراپنی جگہ پرجاکرکھڑے ہوجائیں اورلڑکاجوگیندپھینکے اسے یہ سکھایا جائے کہ ہر مرتبہ حم ینصرون پڑھ کرگیندپھینکے ۔
نتیجہ یہ ہواکہ ۱۶رنزبناکرمیرٹھ کی پوری ٹیم کے سب لڑکے آئوٹ ہوگئے جونامعلوم کہاں کہاں سے جیت کرآئے ہوئے تھے ، یہ اعلی حضرت رحمہ اللہ تعالی کی فن ریاضی کاکمال کہیے یاکرامت کہ آپ رحمہ اللہ تعالی نے ہمیشہ کے لئے ایک ایساعمل عطافرمادیاکہ اس کے ذریعے ہرقسم کے مقابلوں میں فتح حاصل کی جاسکتی ہے ۔ بعض عاملین نے اس پریہ کہاکہ کسی بھی قیمت پرمیرٹھ والوں کے ۱۶رنزسے زیادہ بن نہیں سکتے تھے کیونکہ اس عمل میں بھی ایک عجیب فلسفہ ہے اورحکمت بھی ، کھیعص میں پانچ حروف ہیں اورحمعسق میں بھی پانچ حروف ہیں اورترمیہم میں چھے حروف ہیں۔ اس طرح مل ملاکرسولہ حروف ہوگئے ۔ پس اعلی حضرت رحمہ اللہ تعالی نے اس عمل کے ذریعے بندش کردی تھی لھذاسولہ رنزسے آگے بڑھنااس سے کم ہوناناممکن تھا۔ ۔
شمع شبستان رضااز اقبال احمدنوری : ۲۸۳،۲۸۴) مطبوعہ اکبربک سیلرلاہورپاکستان
اب اس حکایت کی حقیقت کوملاحظہ فرمائیںجسے حضرت شارح بخاری مفتی محمدشریف الحق امجدی رحمہ اللہ تعالی نے بیان کیاہے کہ جب ان سے کسی نے یہ سوال کیاکہ کرکٹ کے بارے میں شمع شبستان رضامیں اعلی حضرت رحمہ اللہ تعالی سے کرکٹ جیتنے کاعمل مذکورہے توکیاکرکٹ کے جواز کی طرف دال ہے یااس کی کوئی اورحکمت ہے؟
آپ رحمہ اللہ تعالی جواباًفرماتے ہیں کہ شمع شبستان رضا میںکرکٹ جیتنے کے عمل کاجوقصہ ہے ، صحیح نہیں ہے ’’شمع شبستان رضا‘‘کے جامع (اقبال احمدنوری کا) جعل ہے کہ مجدداعظم اعلی حضرت قدس سرہ اپنے فتاوی میں تصریح فرماچکے ہیں کہ یہ ناجائز وحرام ہے ۔ پھراس کے جیتنے کے لئے کوئی عمل بتائیں یہ کس طرح عقل مندکی سمجھ میں آسکتاہے واللہ تعالی اعلم ۔
فتوی کی اس عبارت سے واضح ہواکہ اس جعلی واقعہ سے امام اہل سنت امام احمدرضاحنفی رحمہ اللہ تعالی کادامن پاک ہے ۔
(شارح بخاری نمبر۲۸محرم الحرام ۱۴۲۲ھ/۲۳اپریل ۲۰۰۱ء):۲۳۱)
حضرت مفتی شریف الحق امجدی رحمہ اللہ تعالی کاایک اورفتوی شریفہ ملاحظہ فرمائیں
مسئلہ : زیدکرکٹ کھیل رہاتھازیدنے بکرسے کہاکہ آئوآپ بھی کھیلو!توبکرنے جواب میں بارک اللہ کہا، اب دریافت طلب یہ امرہے کہ کہ بکرکاایسے مقام پر بارک اللہ کہناکس جرم میں محمول ہوگا؟ بینوااحکامھامع دلائلھامفصلاًوتوجروا۔
الجوب : بکرپرتوبہ ، تجدیدایمان ، تجدیدنکاح لازم ہے ۔ کرکٹ کھیلناحرام ہے اورکسی بھی حرام کام کرنے پربارک اللہ کہناکفرصریح ہے واللہ تعالی اعلم ۔
(فتاوی شارح بخاری از مولانامفتی محمدشریف الحق امجدی ( ۲: ۲۸۹)
یادرہے کہ کھیل کے جواز کے لیے تین شرطیں ہیں:ایک یہ کہ:کھیل سے مقصود محض ورزش یا تفریح ہو، خود اس کو مستقل مقصد نہ بنالیا جائے۔ دوم یہ کہ کھیل بذاتِ خود جائز بھی ہو، اس کھیل میں کوئی ناجائز بات نہ پائی جائے۔ سوم یہ کہ اس سے شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا نہ ہو۔ اس معیار کو سامنے رکھا جائے تو اکثر و بیشتر کھیل ناجائز اور غلط نظر آئیں گے۔ ہمارے کھیل کے شوقین نوجوانوں کے لیے کھیل ایک ایسا محبوب مشغلہ بن گیا ہے کہ اس کے مقابلے میں نہ انہیں دِینی فرائض کا خیال ہے، نہ تعلیم کی طرف دھیان ہے، نہ گھر کے کام کاج اور ضروری کاموں کا احساس ہے۔ اور تعجب یہ کہ گلیوں اور سڑکوں کو کھیل کا میدان بنالیا گیا ہے، اس کا بھی احساس نہیں کہ اس سے چلنے والوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ اور کھیل کا ایسا ذوق پیدا کردیا گیا ہے کہ ہمارے نوجوان گویا صرف کھیلنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں، اس کے سوا زندگی کا گویا کوئی مقصد ہی نہیں، ایسے کھیل کو کون جائز کہہ سکتا ہے۔
کرکٹ ہمارے ملک کا مقبول کھیل ہے اس کھیل میں وقت اور مال کا اسراف ہوتا ہے۔ اس کے اخراجات بھی بے انتہا ہیں۔ اس کھیل کی دو صورتیں ہیں ٹیسٹ میچ اور ون ڈے میچ۔
ایک ٹیسٹ میچ بالعموم پانچ دن کا ہوتا ہے جو اکثر وبیشتر ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوجاتا ہے۔ ٹیسٹ میچ میں دن بھر کی تھکن اور محنت سے برا حال ہوجاتا ہے۔ کھلاڑی دن بھر کی محنت مشقت کے بعد میدان میں واپس اپنی رہائش گاہ کی طرف لوٹتے ہیں تو تھکن کے مارے اس قابل نہیں ہوتے کہ دین ودنیا کے اہم امور انجام دے سکیں۔ نہ جانے اس بے مقصد تھکن کو کھیل کا نام کس نے دیا ہے؟
جب سے کرکٹ میں ون ڈے (ایک روزہ) میچوں کا رواج پڑا ہے پورا پورا دن لوگ اس کے پیچھے خوار نظر آتے ہیں۔ نہ نماز کی پرواہ نہ جماعت کی پرواہ ہوتی ہے صرف اور صرف میچ کی فکر ہوتی ہے۔ کبھی کبھی ون ڈے میچ جمعتہ المبارک کو بھی کھیلا جاتا ہے۔ عین جمعہ کی نماز کے وقت کھیل جاری رہتا ہے نہ صرف کھلاڑی بلکہ ہزاروں لوگ (تماشائی)ہلڑ بازی اور ناچنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ ہزاروں تماشائی جمعہ کی نماز چھوڑ کر اس کا گناہ اپنے سر لیتے ہیں یوں پورا دن یاد الٰہی سے غفلت میں گزرتا ہے۔
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمدو قار الدین رضوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مومن کی زندگی لہو لعب کے لئے نہیں ہے لہذا تندرستی کے لئے ٹہلنا یا ورزش کے لئے تھوڑا کھیلنا تو جائز ہے مگر کرکٹ، ہاکی، فٹبال وغیرہ جس طرح کھیلے جاتے ہیں اس میں کوئی مقصد صحیح نہیں ہے بلکہ قوم اور ملک کا بہت بڑا نقصان ہے۔ کروڑوں روپے اسٹیڈیم بنانے اور ٹیم تیار کرنے پر خرچ کئے جاتے ہیں پھر جب ملک یا بیرون ملک پانچ روزہ، تین روزہ، اور ایک روزہ جو میچز ہوتے ہیں، آفس میں بیٹھے ہوئے ملازمین کام کے بجائے ریڈیو (موبائل فون)یا ٹی وی سے کمنٹری سننے اور میچ دیکھنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ اس میں قوم کے مال کی بربادی اور وقت کو ضائع کرنا ہے اور دین کے نقصان کا تو عالم یہ ہے کہ ہزاروں افراد اسٹیڈیم میں بیٹھے دن بھر کھیل دیکھتے رہتے ہیں نہ نماز کی پرواہ (نہ جماعت کی)نہ اپنا وقت ضائع ہونے کی پرواہ بہرصورت یہ سب کھیل (کرکٹ، فٹبال، ہاکی وغیرہ)کھیلنا ناجائز و حرام ہے اور ان کو دیکھنے اور سننے میں وقت ضائع کرنا بھی ناجائز ہے۔
ہندوستان کے ممتاز عالم دین علامہ مفتی محمد شبیر قادری رضوی صاحب فرماتے ہیں کہ کرکٹ ٹورنامنٹ میں تضیع اوقات یعنی وقت کو ضائع کرنا ہے جو درست نہیں ہے اور اگر یہ نماز سے غافل کردے جیسا کہ آج کل بکثرت کرکٹ ٹورنامنٹ میں دیکھا جارہا ہے کہ لوگ نماز سے غافل ہوکر اس میں شامل ہوتے ہیں تو یہ حرام ہے۔