کوروناویکسین کاحکم /کورونا ویکسین کیا ہے؟
ایک ہے ’’بیماری کا علاج‘‘ اور ایک ہے ’’بیماری سے بچاؤ‘‘ علاج کے لیے دوا استعمال کی جاتی ہے اور بچاؤ کے لیے ویکسین (VACCINE)۔ویکسین کو عام بول چال میں ’’ٹیکا ‘‘ کہا جاتا ہے جو عموماً نارمل افراد اور بچوں کو لگایا جاتا ہے اور اس کی وجہ سے بیماری کے وائرس لاچار اور بےبس ہوجاتےہیں۔
’’کورونا ویکسین:
یہ حقیقت میں ’’کووِڈ-۱۹‘‘ (COVID-19) نام کی بیماری کی دوا نہیں بلکہ اُس سے تحفظ اور بچاؤ کا ٹیکا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ جس شخص کو یہ ٹیکا لگ جائے گا وہ باذن اللہ، کورونا وائرس کے باعث پیدا ہونےوالے مرض سے متاثر نہ ہوگا ۔ اگر ہوا، تو اس کا زور بہت ہلکا و معمولی ہوگا کیوں کہ اس کی وجہ سے بدن کا دفاعی نظام اتنا مضبوط اور فعال ہو جاتا ہے کہ جسم میں باہر سے آنے والے خطرناک وائرس اس کے مقابل بے بس اور لاچار ہوجاتے ہیں۔
’’کووِڈ-۱۹‘‘(COVID-19) کی ہلاکت خیزی کے پیش نظر دنیا کے مختلف ممالک نے ویکسین بنانے اور عوام کو لگانے کی منظوری دے دی ہے۔ فی الحال منظور شدہ ویکسین کی تعداد نو-۹ تک پہنچ چکی ہے۔ حکومت ہند نے بھی دو کمپنیوں کو ویکسین بنانے اور لگانے کی منظوری دی ہے۔ البتہ یہ منظوری ابھی معالجین اور اُن کے معاونین کےلیے ہے، بعد میں سب کے لیے عام ہوگی۔
پہلی کمپنی ’بھارت بائیوٹیک‘(BHARAT BIOTECH) حیدرآبادہے، اس کے تیار کردہ ٹیکے کا نام ’’کو ویکسین‘‘ (COVAXIN) ہے۔ یہ ویکسین پانچ اجزا کامرکب ہے جن میں سے چار اَجزا در حقیقت چار طرح کے کیمیکل ہیں اور پہلا جز ایک قسم کا ’’غیر متحرک وائرس‘‘ ہے جو کورونا وائرس کے خلاف کام کرتا ہے۔ دوسری کمپنی آکسفورڈ اَسٹرازینیکا (OXFORD ASTRAZENECA) ہے۔ اس کمپنی نے ہندوستان کے شہر پونہ میں واقع سیرم انسٹی ٹیوٹ (SERUM INSTITUTE) کو اپنے فارمولے کے مطابق ویکسین بنانے کی اجازت دی ہے۔ اس کمپنی کی ویکسین کا نام ’’کووی شیلڈ‘‘ (COVISHIELD) ہے۔ کمپنی نے اس ویکسین کے اجزاے ترکیبی میں ایتھنول (ETHANOL) اور پولیسوربیٹ۸۰ (POLYSORBAT 80) کو شامل کیا ہے۔
ایتھنول کا معنی انگریزی لغت کی مشہور کتاب ’’آکسفورڈ‘‘ ڈکشنری میں ’’ کیمیائی الکحل‘‘اور ’’ کنسائز‘‘ ڈکشنری میں ’’الکحل‘‘ لکھا ہے۔ کوویکسین میں بھی فینو کسی ایتھنول (PHENOXY ETHANOL ) نام کا ایتھنول شامل ہے جو نام سے الکحل کی ایک قسم معلوم ہوتا ہے، اس کا استعمال اشیا کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے ہوتا ہے، اور الکحل آمیز دواؤں کا استعمال بوجہ عموم بلویٰ جائز ہے، مجلس شرعی جامعہ اشرفیہ، مبارک پور نے پوری تحقیق کے بعد یہ فیصلہ کیا ہےجسے ’’مجلس شرعی کے فیصلے‘‘ جلد اول، مطبوعہ مبارک پور میں دیکھا جا سکتا ہے۔اور پولیسوربیٹ ۸۰ (POLYSORBAT 80) خنزیر سے بھی اخذ کیا جاتا ہے اور نباتات سے بھی۔ خنزیر سے اخذ کیا ہوا جز حرام ہے اور بناتات سے حاصل کیا ہوا حلال، فی الحال یہ تحقیق نہیں ہو سکی کہ کووی شیلڈ میں کون سا پولیسوربیٹ شامل ہے۔ ہاں اتنا کہا جا سکتا ہے کہ ہمیں یہ نہیں معلوم ہے کہ پولیسوربیٹ خنزیر کا جز ہے، ہو سکتا ہے نباتات کا جز ہو۔
شرعی احکام:
’’کورونا ویکسین‘‘ ہویا کوئی بھی نئی دوا، اس کا حکم شرعی جاننے کے لیے بنیادی طور پر دوباتوں کا علم ضروری ہے:
ایک: یہ کہ ویکسین کے سارے اجزاے ترکیبی پاک ہیں یا ان میں کچھ ناپاک وحرام لعینہٖ بھی ہیں۔دوسرا: ویکسین کا ایڈورس ایفیکٹ یا منفی اثر •معمولی ہے • یا سنگین •یا انتہائی سنگین۔معمولی اثر: جیسے ٹیکے کی جگہ پر سوجن، ہلکا بخار، جسم میں درد، گھبراہٹ۔سنگین منفی اثر: جیسے شدید بخار، شدید الرجی، مگر، ان کے دور رس اثرات نہیں ہوتے اور اسپتال جانے کی ضرورت نہیں پیش آتی۔انتہائی سنگین منفی اثر: اس میں اسپتال جانے کی ضرورت پیش آتی ہےاور بعض کیسیز مایوس کن بھی ہو سکتے ہیں۔
(۱) ویکسین کا حکم اجزاے ترکیبی کے لحاظ سے:
پہلی بات کا علم کمپنی یا اس کے متعلقہ افراد کے بتانے سے ہوتا ہے اور دونوں کمپنیوں نے اپنے ویکسین کے اجزاے ترکیبی اپنے اپنے ویب سائٹ پر شائع کر دیئے ہیں مگر ان سے جزم ویقین کے ساتھ یہ نہیں معلوم ہوتا کہ ان میں کوئی چیز ناپاک یا حرام لعینہٖ ہے۔ اس لیے حکم جواز کا ہوگا۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:قال الإمام محمد بن الحسن الشیبانی: وبہ ناخذ ما لم نعرف شیئا حراماً بعینہ وہو قولُ أبي حنیفۃ رحمہ اللہ تعالی وأصحابہ کذا في الظہیریۃ (الفتاوی الہندیۃ:ج۵،ص۳۴۲، الباب الثاني عشر في الہدایا والضیافۃ، دار الکتب العلمیۃ( بیروت، لبنان)
امام محمد بن حسن شیبانی فرماتے ہیں کہ جب تک کسی چیز کے بارے میں ہمیں یہ نہ معلوم ہو کہ وہ حرام لعینہٖ ہے، ہم اسے حلال مانتے ہیں، یہی قول امام اعظم ابو حنیفہ اور آپ کے اصحاب رحمہم اللہ کا ہے۔
شریعت طاہرہ کا ضابطہ ہے کہ جس چیز کی نجاست وحرمت معلوم نہ ہو وہ پاک وحلال ہے کیوں کہ مدارِ نجاست علم پر ہے اور مدارِ طہارت، نجاست سے لا علمی پر۔ یوں ہی مدارِ حرمت علم پر ہے اور مدارِ حلت، حرمت سے لاعلمی پر۔ ماہر قانون اسلامی، امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہواکہ’’ایام وبا میں گورنمنٹ کی طرف سے جو دوا کنوؤں میں واسطے اصلاح، پانی کے ڈالی جاتی ہے اور رنگ پانی کا سرخ ہو جاتا ہے اور ذائقہ میں بھی فرق آجاتا ہے وہ پانی طاہر اور قابل پینے اور وضو کے ہے یا نہیں۔‘‘ آپ نے اس کے جواب میں ارقام فرمایاکہ’’جب تک نجاست کا علم نہیں پانی طاہر مُطہِر ہے کہ اصل اشیا میں طہارت ہے۔ یوں ہی جب تک حرمت کا علم نہیں پانی حلال ومشروب ہے کہ اصل اشیا میں اباحت ہے۔‘‘
(فتاوی رضِویہ:ج:۱، ص: ۵۴۹، بابُ المیاہ،فصل فی البئر،رضا اکیڈمی)
ایک دوسرے سوال کے جواب میں لکھتے ہیں’’ حکم پاکی کا ہے‘‘ جب تک نجاست یقیناً نہ معلوم ہو۔‘‘ (ایضاً: ص ۵۶۸)
ویکسین تین طرح کی ہو سکتی ہے:
ایک: وہ ویکسین جس کے فارمولا کا اعلان دوا ساز کمپنی نے کر دیا ہے اور وہ سب اجزا پاک و حلال ہیں۔دوسری: وہ ویکسین جس کا فارمولا کمپنی نے شائع نہیں کیا، نہ کسی اور ذریعہ سے جزم ویقین کے ساتھ یہ معلوم ہو سکا کہ اس کا کوئی جز ناپاک یا حرام ہے۔تیسری : وہ ویکسین جس کے بارے میں کمپنی نے اعلان کر دیا ہے کہ اس میں مثلاً خنزیر کا کوئی جز شامل ہے۔ خنزیر کا جز تو بلا شبہہ مذہب اسلام میں ناپاک وحرام ہے مگر مجھے فی الحال کسی ایسی ویکسین اور کمپنی کا علم نہیں، اس لیے اس سے صرف نظر کرتے ہیں۔
پہلی قسم کی ویکسین کا استعمال جائز ودرست ہے کہ کورونا وائرس کے ممکنہ خطرات سے تحفظ کے لیے مفید ومؤثر ہے جو شرعا مطلوب ومباح ہے ۔ دوسری قسم کی ویکسین کا استعمال بھی جائز و درست ہے کہ ویکسین کا تعلق باب علاج سے ہے جو شرعاً مباح ہے اس لیے صرف ناپاک چیز کی آمیزش کے شبہہ سے اسے حرام نہیں قرار دیا جاسکتا کہ اصل حلت وطہارت ہے۔ماہر قانون اسلامی امام احمد رضا قدس سرہ نے اپنی ایک کتاب الأحلیٰ من السکرمیں چند شرعی ضوابط کے ذریعہ اس طرح کے مسائل کے احکام پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ ہم یہاں اس کے چند اقتباس پیش کرتے ہیں:
• حضرت حق جلَّ وعلا نے ہمیں یہ تکلیف نہ دی کہ ایسی ہی چیز کو استعمال کریں جو واقع ونفس الامر میں طاہر وحلال ہو کہ اس کا علم ہمارے حیطۂ قدرت سے ورا ہے۔قال اللہ تعالیٰ:لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا. (سورۃ البقرۃ:۲، الآیۃ ۲۸۶)ترجمہ: اللہ کسی پر بوجھ نہیں ڈالتا، مگر اس کی طاقت بھر۔نہ یہ تکلیف فرمائی کہ صرف وہی شے برتیں جسے ہم اپنے علم ویقین کی رُو سے طیب وطاہر جانتے ہیں کہ اس میں بھی حرج عظیم ہے اور حرج مدفوع بالنص،قال تعالیٰ:وَ مَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ ( سورۃ الحج:۲۲، الآیۃ۷۸) ترجمہ: اللہ نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔وقال تعالیٰ:يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَ لَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ( سورۃ البقرۃ:۲، الآیۃ ۱۸۵) ترجمہ: اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے اور تمھارے ساتھ دشواری نہیں چاہتا۔
اے عزیز! یہ دین بحمداللہ آسانی وسماحت کے ساتھ آیا جو اسے اس کے طور پر لے گا اس کے لیے ہمیشہ رفق ونرمی ہے اور جو تعمق وتشدد کو راہ دے گا یہ دین اُس کے لیے سخت ہوتا جائے گا۔ یہاں تک کہ وہی تھک رہے گا اور اپنی سخت گیری کی آپ ندامت اٹھائے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: إن الدین یسر ولن یشادَّ الدین أحدٌ إلاغلبہ فسدَّدوا وقارِبوا وابشروا۔ أخرجہ البخاري والنسائي عن أبي ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ۔ وصدرہ عند البیھقی فی شعب الإیمان بلفظ : ’’الدین یسر ولن یغالب الدین أحد إلاغلبہ‘‘۔ وأخرج أحمد والنسائی و ابن ماجۃ و الحاکم بإسناد صحیح عن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالی عن النبي صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم إیّاکم و الغلوفی الدین فإنما ھلک من کان قبلکم بالغلوفی الدین ۔
(ترجمہ: بے شک دین آسان ہے اور ہرگز کوئی شخص دین میں سختی نہ برتے گا مگر وہ اس پر غالب آجائے گا تو درست روی اپناؤ اور درستگی کے قریب رہو اور خوش خبری دو ۔ اسے بخاری اور نسائی نے حضرت ابُو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا۔ • اور شعب الایمان میں امام بیہقی نے یہ الفاظ نقل کیے :دین آسان ہے اور جو کوئی دین پر غالب ہونا چاہے (کہ شدت پر قائم رہے) تو دین اس پر غالب ہو جائے گا۔ • امام احمد، نسائی، ابن ماجہ اور حاکم نے سند صحیح کے ساتھ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کیا ، وہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ ‘’’دین میں غلو کرنے سے بچو ؛ کیوں کہ تم سے پہلے لوگ دین میں غلو کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔‘‘ ن)
بلکہ صرف اس قدر حکم ہے کہ وہ چیز تصرف میں لائیں جو اپنی اصل میں حلال وطیب ہو اور اُسے مانع ونجاست کا عارض ہونا ہمارے علم میں نہ ہو لہٰذا جب تک خاص اس شَے میں جسے استعمال کرنا چاہتا ہے کوئی مظنۂ قویہ حظر وممانعت کا نہ پایا جائے تفتیش وتحقیقات کی بھی حاجت نہیں مسلمان کو رواکہ اصل حل وطہارت پر عمل کرے اور یُمکن ویحتمل و شاید ولعلَّ کو جگہ نہ دے۔
فی الحدیقۃ: لاحرمۃ إلّامع العلم لأنَّ الأصل الحِلُّ ولایلزمہ السؤالُ عن شيء حتی یطلع علی حرمتہ و یتحقّق بھا فیحرم علیہ۔ ح اھ ملخصا
وفیھا عن جامع الفتاوی: لایلزم السؤال عن طھارۃ الحوض مالم یغلب علی ظنہ نجاستہ وبمجرد الظن لایمنع من التوضّئ۔ لأن الأصل فی الأشیاء الطھارۃ، اھ۔
امیر المومنین عمررضی اللہ عنہ ایک حوض پر گزرے، عمروبن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ساتھ تھے، حوض والے سے پُوچھنے لگے، کیا تیرے حوض میں درندے بھی پانی پیتے ہیں؟ امیر المومنین نے فرمایا: اے حوض والے! ہمیں نہ بتا۔
مالکٌ فی مؤطاہ: عن یحيٰی بن عبدالرحمٰن أن عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ خرج فی رَکب فیھم عمرو بن العاص رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ حتی وردوا حوضا فقال عمرو: یاصاحب الحوض! ھل ترد حوضک السباع؟ فقال عمربن الخطاب: یاصاحب الحوض! لاتخبرنا، فإنا نرد علی السباع و ترد علینا ۔قال سیدی عبدالغنی: ولعلہ کان حوضاً صغیرا وإلا لما سأل اھ ملخصًا ۔ وقال تحت قولہ: ’’لاتخبرنا‘‘ أی ولوکنت تعلم أنہ ترد السباع، لأنا نحن لانعلم ذلک، فالماء طاھر عندنا فلواستعملناہ لاستعملنا ماءً طاھرا ولایکلف اللّٰہ نفساً إلّا وسعھا اھ(الأحلیٰ من السّکر، لطلبۃ سکرروسر: مشمولہ فتاوی رضویہ،ج:۲،ص۱۰۶،۱۰۷،کتاب الطہارۃ،باب الأنجاس، مقدمہ عاشرہ، رضا اکیڈمی، ممبئی۔)
• اس میں شک نہیں کہ شبہہ کی جگہ میں تفتیش وسوال بہتر ہے جب اس پر کوئی فائدہ مترتب ہوتا سمجھے۔فی البحر الرائق عن السراج الھندی عن الفقیہ أبی اللیث: ان عدم وجوب السؤال من طریق الحکم۔ وان سأل کان احوط لدینہ (ایضاً:ص۱۱۱)
• احتیاط اس میں نہیں کہ بے تحقیق بالغ وثبوت کامل کسی شے کو حرام و مکروہ کہہ کر شریعت مطہرہ پر افترا کیجیے بلکہ احتیاط اباحت ماننے میں ہے کہ وہی اصل متیقن اور بے حاجت مُبین خود مُبَیَّن۔سیدی عبدالغنی بن سیدی اسمٰعیل قدس سرہما الجلیل فرماتے ہیں:
لیس الاحتیاط فی الافتراء علی اللّٰہ تعالٰی باثبات الحرمۃ أوالکراھۃ اللذین لابدلھما من دلیل، بل فی القول بالإباحۃ التی ھی الأصل وقد توقف النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم فی تحریم الخمر أمّ الخبائث حتی نزل علیہ النص القطعی اھ وآثرہ ابن عابدین فی الأشربۃ مقرا۔
بازاری افواہ قابل اعتبار اور احکامِ شرع کی مناط ومدار نہیں ہوسکتی بہت خبریں بے سروپا ایسی مشتہر ہوجاتی ہیں جن کی کچھ اصل نہیں، یا ہے تو بہزارتفاوت، اکثر دیکھا ہے ایک خبر نے شہر میں شہرت پائی اور قائلوں سے تحقیق کیا تو یہی جواب ملاکہ سنا ہے، نہ کوئی اپنا دیکھا بیان کرے، نہ اُس کی سند کا پتا چلے کہ اصل قائل کون تھا جسے سُن کر شدہ شدہ اس اشتہار کی نوبت آئی۔(ایضاً: ص ۹۰، ۹۱، مقدمۂ ثالثہ ومقدمۂ رابعہ)
فتاوی رضویہ کےیہ اقتباسات احادیث نبویہ اور فقہی تصریحا ت پر مبنی ہیں، ان سے یہ امر بخوبی منقح ہو جاتا ہے کہ افواہ پر حکم شرعی کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی، یوں ہی کسی پاک وصاف چیز کو صرف شک کی بنا پر حرام نہیں قرار دیا جاسکتا۔ علاج اور دوا میں اصل حلت وطہارت ہے لہٰذا جب تک یقین سے یہ نہ معلوم ہوجائے کہ فلاں دوا میں خنزیر کا جز یا کوئی نا پاک چیز شامل ہے اسے حرام وناجائز نہیں کہا جاسکتابلکہ اسے پاک وحلال مانا جائے گا لہٰذا اس کا استعمال جائز ودرست ہوگا۔ واللہ تعالیٰ اعلم
(۲) ویکسین کا حکم منفی اثرات کے لحاظ سے:
کوئی نئی ویکسین ہو یا دوا، تیار ہونےکے بعد اسے تجربات کے مختلف مراحل سے گزارا جاتا ہے اُسے کلینکل ٹرائل کہتے ہیں، اِن تجربات کے ذریعہ یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ ویکسین سے بدن کے دفاعی نظام میں مثبت رد عمل پیدا ہوتا ہے یا ناخوش گوار منفی اثرات پیدا ہوتے ہیں، آخری مرحلے کا تجربہ بھی کامیاب ہوتا ہے تو حکومت اس کے استعمال کی عام منظوری دے دیتی ہے، اس لیے جب آخری دور کے تجربے کے بعد حکومت ویکسین لگانے کی عام منظوری دیدے تو کورونا ویکسین لگوانے کی اجازت ہوگی۔ کوئی تقوی کے لیے بچے تو اس کی مرضی۔ہاں اِلرجی والے اور حاملہ وغیرہا کو ویکسین لگوانا ممنوع ہے لہٰذا وہ ضرور بچیں کہ جو چیز از روے طب مضر ہے وہ شرعاً ممنوع ہے۔
یہی حکم ان تمام ممالک کا ہے جہاں حکومت نے ویکسین لگوانے کا اذن عام دے دیا ہے اور اس میں ناپاک اجزا کا شمول تحقیق کے ساتھ معلوم نہیں ہے۔ یہ حق ہے کہ کورونا وائرس کے مرض نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے، دنیا بھر میں اس موذی مرض سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد بائیس لاکھ سے متجاوز ہو چکی ہے جب کہ اس کے متاثرین کی تعداد دس کروڑ، بیس لاکھ سے زیادہ ہو چکی ہے، ظاہر ہے کہ اس کے باعث لاکھوں عورتیں بیوہ اور لاکھوں بچے یتیم وبے سہارا ہو چکے ہیں ، مگر ان سب کے باوجود کورونا ویکسین ایسے بیماروں کا علاج نہیں ہے جو کورونا وائرس کے جان لیوا حملے سے موت وحیات کی کشمکش اور اضطرار کے نازک ترین حال میں ہوں، بلکہ ویکسین عموماً نارمل انسانوں کو لگائی جاتی ہے جس کامقصد موذی وائرس کے ممکنہ خطرات سے تحفظ وبچاؤ ہے۔ اس لیے ویکسین لگانے کے وقت اضطرارو ضرورتِ شرعی کا تحقق قطعاً نہیں ہوتا، بلکہ عموماً یہ درجۂ منفعت میں ہوتا ہے اور مخصوص حالات میں مخصوص لوگوں کے لیے درجۂ حاجت میں بھی ہو سکتا ہے، مثلاً کورونا کی وبا عام ہو تو مریضوں کا علاج اور ان کی دیکھ بھال کرنے والے ڈاکٹروں ، نرسوں، تیمار داروں نیز کھانسی، شوگر، کِڈنی اور سانس کے مریضوں اور کمزور بوڑھے اور بچوں کے لیے ویکسین کی حاجت شرعی ہوگی، ورنہ عام حالات میں عام انسانوں کے لیے شرعی اصطلاح کے مطابق یہ ویکسین منفعت کے درجے میں ہوگی جس کے لیے کوئی محظور شرعی یا حرام لعینہٖ حلال نہیں ہو تا، ضرورت، اضطرار، حاجت، منفعت، زینت وغیرہ کا تعارف راقم کی کتاب ’’فقہ اسلامی کے سات بنیادی اصول‘‘ میں ہے۔ اس لیے ضرورت شرعی یا اضطرار کا سہارا لے کر کسی حرام لعینہٖ اور ناپاک چیز کو حلال نہیں قرار دینا چاہیے۔
خلاصۂ کلام:(۱)
کورونا ویکسین نارمل انسانوں کو مہلک وائرس کے ممکنہ خطرات سے تحفظ کے لیے لگائی جاتی ہے، ایسا نہیں کہ اُس وقت وہ کورونا کے جان لیوا حملے سے مغلوب ومُضطر ہو چکے ہوں اور ویکسین لگانے سے بچ جائیں۔
(۲) کسی ملک کے ویکسین میں ناپاک جز کا شمول تحقیق کے ساتھ معلوم ہو تو وہاں کے لوگ ایسی ویکسین سے بچیں اور وقتِ حاجت پاک ویکسین تلاش کر کے لگوائیںاور پاک ویکسین تو عام حالات میں بھی لگوانے کی اجازت ہے۔ یوں ہی جس ویکسین میں کسی ناپاک چیز کی آمیزش کی تحقیق اور جزم نہ ہو اُسے بھی لگوا سکتے ہیں۔ یہ حکم تمام ممالک کے لیے ہے۔(۳) ہندوستان میں دو کمپنیوں نے ’’ کو ویکسین‘‘ اور ’’کودی شیلڈ‘‘ نام سے ویکسین تیار کی ہے اُن میں ناپاک اجزا کے شمول کی تحقیق نہیں ، لہٰذا لگوا سکتے ہیں، البتہ جن لوگوں کو ویکسین لگوانا طِباً ممنوع ہے وہ بچیں۔(۴) یہ اجازت حکومت کی طرف سے عام منظوری ملنے کے بعد دی جاتی ہے تاکہ یہ اطمینان ہو کہ یہ ویکسین کسی سنگین منفی اثر سے محفوظ ہے۔ہذا ما عندي والعلمُ بالحقّ عند ربّي، وہو تعالیٰ أعلم وعلمُہ جلّ مجدہٗ أتمّ وأحکم