چاند اور ستاروں کی پیدائش اورحکمتیں از ڈاکٹر عبدالواحد علیگ
ارشاد باری تعالی ہے
تَبَارَکَ الَّذِیْ جَعَلَ فِی السَّمَائِ بُرُوْجاً وَ جَعَلَ فِیْھَا سِرَاجاً وَ قَمَراً مُنِیْرا۔ (سورہ فرقان۔ ۶۱)
ترجمہ: بہت برکت والا ہے وہ جس نے آسمان میں بُرج بنائے اور بنایا اس میں چراغ اور روشن چاند۔
رات کو اللہ تعالی نے اس لئے بنایا کہ اس میں ہوا ٹھنڈی ہوجائے اور حیوان ٹھنڈی ہوا میں سکون و آرام سے ذرا دم لیں، لیکن رات کو بالکل تاریک نہیں کیا کہ روشنی سے وہ یکسر خالی ہو ورنہ بہت سے کام رات میں کیسے انجام دئیے جاسکتے تھے۔
لوگوں کو کچھ کام کاج رات میں بھی کرنے ہوتے ہیں یا تو اچانک کسی ضرورت کی بنا پر یا دن کے چھوٹے ہونے کے سبب کام دن کے بچے رہتے ہیں۔ نیز ایسا بھی ہوتا ہے کہ دن کی گرمی اور تمازت کام نہیں کرنے دیتی۔ لہٰذا انسان کام کو رات کے لئے اٹھا رکھتا ہے یا کسی اور بنا پر۔ بہر حال کام کرنا ہوتا ہے اور کام کے لئے روشنی درکار ہے تو چاند کی ہلکی ہلکی روشنی کام میں بڑی مدد دیتی ہے اس لئے چاند کو قدرت نے روشنی بخشی۔
البتہ اس کو سورج کی طرح تیز روشنی اور حرارت نہیں دی اس مقصد سے کہ کہیں انسان حرارت کی شدت سے عملی چستی اپنے اندر پاکر کام میں نہ لگ پڑے اور پھر آرام و سکون قرار و تسلی کو بھلا بیٹھے اور ساتھ ساتھ صحت کو بھی خیر باد کہے۔
پھر ستاروں کو قدرت نے چاند سے بھی کم روشنی عطا فرمائی ان کی ہلکی روشنی میں دو مصلحتیں پیش نظر ہیں، ایک یہ کہ اگر چاند نہ نکلے تو روشنی کی ضرورت کو ایک حد تک حاصل کرسکیں، دوسرے یہ کہ آسمان کے لئے زینت اور خوبصورتی اور اہل زمیں کے لئے فرحت و مسرت کا سبب ہوں۔
غور کیجئے! نظام قدرت پر کہ آرام لینے کی خاطر تاریکی کو باری باری سے لائے اور وہ بھی وقتی طور سے پھر محض تاریکی نہ رکھی بلکہ اس میں ہلکی سی روشنی کا انتظام بھی فرمایا تا کہ لوگ اپنی حاجتوں کو تکمیل تک پہنچا سکیں۔
نیز مہینوں اور سالوں کا پتہ چاند ہی سے چلتا ہے اور اس لحاظ سے چاند کا وجود انسانوں کے لئے اللہ تعالی کی نعمت عظمیٰ ہے اور اس میں ان کی اصلاح درکار ہے۔ ستاروں کے وجود سے ہم اپنے اور بھی کام نکالتے ہیں ۔ مثلاً کھیت بونے اور درخت لگانے کے اوقات معلوم کرتے ہیں ، خشکی اور تری کے سفر میں انہیں سے رہنمائی کرتے ہیں۔ سردی اور گرمی کا سراغ بھی انہیں سے لگتا ہے۔
سیّاح لوگ جب رات کی تاریکی میں ہیبت ناک لق و دق جنگل طے کرتے ہیں یا ہولناک بے نشان سمندر پر گذرتے ہوتے ہیں تو ستاروں کی مدد سے ہی اپنی راہیں نکالتے ہیں اور سمتوں کو قائم کرتے ہیں۔
جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے۔
’’وَھُوَالَّذِیْ جَعَلَ لَکُمْ النُّجُومَ لِتَھْتَدُوْا بِھَا فِیْ ظُلمَاتِ البَرِّ وَالبَحْر‘‘
ترجمہ: یعنی اللہ ہی کی ذات ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ تم ان کے ذریعہ ہدایت پاؤ خشکی اور تری کی اندھیروں میں۔
پھر آسمان میں ان کا طلوع ہونا، یا غروب ہونا یا اس کی پنہائی میں جگمگانا بڑا پیارا اور خوشنما معلوم ہوتا ہے اس طرح چاند کیا کیا دلفریب منظر نظر کے سامنے کھینچتا ہے، کبھی کمان کی شکل میں باریک چمکتا ہے، کبھی گھٹتا ہے تو کبھی بڑھتا ہے اور کبھی پوری آب و تاب سے چمک کر زینت آسمان بنتا ہے کبھی گہن میں آکر روپوش ہوتا ہے اور کبھی سورج کی روشنی میں گم ہوکر رہ جاتا ہے۔
الغرض کائناتِ عالم کا یہ حیرتناک انقلاب اور رد و بدل اس خلاق عالم کی قدرت بے پایاں کی کھلی مثال ہے جس میں عالم کی اصلاح کے لئے اس نظام کو برقرار رکھا ہے۔
سوچئے آفتاب ان تمام ستاروں کے ساتھ کس تیزی سے دن رات میں سارے عالم کے گرد گھوم جاتا ہے ، چوبیس گھنٹے میں ہم ان ستاروں کا نکلنا بھی دیکھ لیتے ہین اور ڈوبنا بھی تو اندازہ لگائیے کہ کس سرعت سے یہ پورے عالم کا چکر لگالیتے ہیں ۔ ان کی اس تیز رفتاری کو سامنے رکھ کر قدرت کے اس فلسفے کو سمجھئے کہ ان کو اگر ہم سے اس قدر بلند اور دور نہ رکھا جاتا تو یہ اپنی تیز رفتاری سے ہماری نظروں کو اچک لیتے اور ایسا معلوم ہوتا کہ ہزاروں بجلیاں ہمارے سامنے کوند گئیں۔ اور ہم اس کی تاب نہ لاسکتے۔ لہذا پروردگار عالم نے اپنی رحمت سے ان کو اس قدر دوری کی مسافت پررکھا کہ ان کی رفتار کی تیزی ہماری نگاہ کو دکھ نہ پہنچائے اور ان کی چال و رفتار کا حسب حاجت ایک پورا نظام بنایا، ساتھ ساتھ یہ بھی قابل عبرت حقیقت ہے کہ بہت ستارے سب کے سب پورے سال نمودار نہیں ہوتے، کچھ ان میں ایسے بھی ہیں جو بعض دنوں میں دکھائی دیتے ہیں اور بعض میں نہیں۔ مثلاً ثریا، جوزا اور شعری وغیرہ۔
اگر یہ ستارے پورے سال نمودار رہتے تو ان کے ظہور یا طلوع سے لوگ اپنے امور کا جو پتہ لگا لیتے ہیں اور یوں بہت سے کام نکال لیتے ہیں۔ یہ صورت کب بنتی کیونکہ سب نکلتے ہی رہتے ، طلوع و غروب کا اس میں سوال ہی نہیں ہوتا۔ البتہ ’’بنات نعش‘‘ کے سات ستارے قطب شمالی کی رخ میں ہمیشہ نمودار ہی رہتے ہیں ، کبھی غائب نہیں ہوتے کیونکہ ان کی حیثیت ان نشانات راہ کی سی ہے جو تری اور خشکی میں مقرر کئے جاتے ہیں، ’’اور ان کی رہنمائی سے راہ بھٹکنے والے اپنی راہ پا لیتے ہیں‘‘۔
پھر فرض کیجئے کہ اگر تمام ستارے ایک جگہ ٹھہرے ہوئے ہوتے تو ان کی حرکات سے مختلف برجوں میں ان کے داخل ہوجانے سے ہم جن امور کا پتہ لگالیتے ہیں ان کا پتہ کیسے لگتا، جس طرح سورج اور چاند کے مختلف برجوں میں منتقل ہونے سے ہم بہت سے امور کا علم حاصل کرلیتے ہیں، یا بصورت دیگر سب ہی ستارے چلتے ہوتے تو برجوں کا اندازہ کیسے لگتا؟ کیونکہ اب تو ہم چلنے والے ستاروں کی رفتار کا اندازہ قریبی برجوں سے لگالیتے ہیں جن کے نزدیک سے وہ گذرتے ہین جس طرح خشکی پر چلنے والے کی رفتار کا اندازہ ہم اس کی گذرگاہ کے قریبی مقامات سے کرلیا کرتے ہیں۔ یہ سب ستارے چلتے ہوتے تو یہ صورت کب ممکن تھی ۔
خلاصۂ کلام یہ ہوا کہ یہ سورج ، یہ چاند، یہ ستارے یہ بروج یہ سب کے سب سال کی چاروں فصلوں میں حیوانات و نباتات کی مصالح کے لئے پورے عالم پر ایک اٹل نظام کے ساتھ گھومتے ہی رہتے ہیں۔ خداوند قدوس کی کس قدر بڑی حکمت ہے کہ اس نے آسمانوں کو کس قدر پختگی کے ساتھ عالم پر قائم فرمایا، کیونکہ ان کو بڑی طویل مدت کے لئے وجود میں رکھنا تھا۔ اگر ان کو کمزور بنایا جاتا اور ان میں تغیر رونما ہوتا تو اس کی اصلاح و درستی انسان کی طاقت سے باہر تھی، لامحالہ اس تغیر سے زمیں بہت برا اثر لیتی کیونکہ زمیں اپنی ذات اور اپنے وجود میں آسمان کے ساتھ گہرا ربط رکھتی ہے، لہٰذا اس سارے نظام عالم میں بس مخصوص قدرت الٰہی کارفرما ہے، جس کی و جہ سے عالم کا ذرہ ذرہ ادھر سے ادھر نہیں ہوتا بلکہ عالم پر لگا ہوا ہے۔
تجزیہ: سورج کے بعد چاند کا چمکتا ہوا کرہ اپنی دلفریب ہلکی ہلکی روشنی سے ہماری نظروں کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور ہمارے دل کو موہ لیتا ہے، یہ رات کی زینت ہے تاریکی کی ہولناکی کو کم کرتا ہے، تھکے ہارے انسانوں کے سلانے میں مدد کرتا ہے، ان کے بچے کھچے کاموں کو پورا کرنے میں معاونت کرتا ہے، اس میں بڑی بڑی حکمتیں مضمر ہیں، نمونہ کے طور پر ضبط اوقات کے نظام کو دیکھ لیجئے۔ چاند سورج دونوں ملا کر قائم کرتے ہیں اور اس نظام کے مرتب کو دیکھ لیجئے جو چاند سورج دونوں کا زبردست ہاتھ ہے۔ یہ دونوں مل کر مہینوں اور سالوں کی جنتری بھی بناتے ہیں اور گھنٹے بھی یہی ضبط کرتے ہیں گویا روزانہ کی ڈائری بھی یہی تیار کرتے ہیں۔
یہ آسمان و زمیں کا گولہ بالکل ایک گھڑی کے مانند ہے آسمان ایک ڈائیل ہے اور آسمان پر سورج و چاند کے مقررہ برج گھنٹوں کے نشانات کے مثل اور سورج اور چاند اس فضائی گھڑی کی چھوٹی بڑی سوئیاں ہیں، ان دو سوئیوں کے کام ایک حیثیت سے بالکل ہماری گھڑیوں کی سوئیوں کی طرح ہیں کہ مثلاً بڑی سوئی سورج ہماری گھڑیوں کی بڑی سوئی کی مانند چھوٹی چیزیں بناتا ہے۔ یعنی طلوع اور غروب کے درمیان اوقات میں گھنٹوں کو ضبط کراتا ہے اور طلوع و غروب کی شناخت کراتا ہے۔
اور فضائی گھڑی کی چھوٹی سوئی چاند ہماری گھڑیوں کی چھوٹی سوئی کے مثل بڑی چیزیں بناتا ہے۔ یعنی رویت سے مہینوں کی شناخت کراتا ہے۔ انہیں مہینوں سے سالوں کا اندازہ بھی مقرر کراتا ہے۔
ایک دوسرے پہلو سے سورج اور چاند کا کام ہماری گھڑیوں کے سوئیوں کے خلاف بھی ہے اور وہ اس طرح کہ سورج گھڑی کی چھوٹی سوئی کی رفتار میں بہت سست ہے، کیونکہ اس کے سال کے بارہ برج ہیں اور ہر ماہ میں صرف یہ ایک برج طے کرتا ہے، سال میں چار
یں ہوتی ہین اور ہر فصل میں یہ تین برج طے کرتا ہے۔ اس کے برخلاف چاند بڑی سوئی کی طرح تیز رفتار ہے کیونکہ ہر ماہ سے اٹھائیس برج طے کرتا ہے اور ایک دن میں ایک برج طے کرجاتا ہے۔
پھر ہماری گھڑیوں کو اس فضائی قدرتی گھڑی سے کیا نسبت؟ ؎
ع ۔ چہ نسبت خاک را با عالم پاک
ہماری گھڑیاں ٹوٹتی ہیں بگڑتی ہیں آگے بھی ہوتی ہیں۔
اور پیچھے بھی لیکن یہ قدرتی گھڑی ایسی باقاعدگی سے چلائی جارہی ہے کہ نہ بگڑتی ہے نہ ٹوٹتی ہے نہ آگے ہوتی ہے نہ پیچھے رہتی ہے۔
سبحانہ ما اعظم شانہ
ہزاروں مر گئے اس جستجو میں
نہ پایا بھید قدرت کا کسی نے