مصنوعی جرابوں پر مسح درست ہے یا نہیں؟/ موزے پر مسح جائز ہے یا نہیں ؟
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ مصنوعی جرابوں میں مسح درست ہے یا نہیں؟
جواب عنایت فرمائیں .
باسمه تعالى وتقدس
الجواب بعون الهادى الى الحق والصواب:
ہمارے ملک ہندوستان میں جو مصنوعی جراب ہیں وہ یا تو اونی ہیں یا سوتی یا نائلون کے ان پر مسح کرنا درست نہیں کیونکہ موزوں پر مسح کے درست ہونے کے لیےتین چیزوں میں سے ایک ہونا ضروری ہے ۔
(١) یا تو چمڑے کے ہوں ۔
(٢) یا ان کا تلا چمڑے کا لگا ہو ۔
(٣) یا وہ اتنے موٹے ہوں کہ انہیں پہن کر تین میل سے زائد مسافت طے کریں تو نہ پھٹیں اور وہ اپنے دبیز اور موٹے ہونے کے سبب بغیر باندھے پنڈلیوں پر رکے رہیں ڈھلک نہ آئیں اور اگر ان پر پانی پڑ جائے تو روک سکیں پاؤں تک پانی نہ پہنچنے دیں-
لہذا جو موزے مذکورہ بالا تینوں اوصاف سے خالی ہوں ان پر بالاتفاق مسح جائز نہیں ۔ ہاں اگر مروجہ جرابوں پر بھی چمڑا چڑھا لیا جائے یا تلا چمڑے کا لگا لیا جائے تو پھر ان پر بھی مسح بالاتفاق جائز ہوگا یا کرمچ وغیرہ کے اس طرح دبیز اور موٹےجراب بنائے جائیں جن کے اوصاف چند سطر قبل مذکور ہوئے تو امام ابو یوسف اور امام محمد رحمھما اللہ کے نزدیک ان پر مسح جائز ہوگا اور یہی قول مفتی بہ ہے ۔
منیة المصلى اور اس کی شرح غنية المستملى میں ہے”(والمسح على الجوارب لا يجوز عند ابى حنيفة الا أن يكونا مجلدين) اى استوعب الجلد ما يستر القدم الى الكعب(أو منعلين) اى جعل الجلد على ما يلى الارض منها خاصة كالنعل للرجل(وقالا يجوز اذا كانا ثخينين لا يشفان) فان الجوارب اذا كان بحيث لا يجاوز الماء منه الى القدم فهو بمنزلة الاديم والصرم فى عدم جذب الماء الى نفسه الا بعد لبث وذلك بخلاف الرقيق فانه يجذب الماء وينفذه الى الرجل فى الحال(وعليه) اى على قول ابى يوسف ومحمد(الفتوى والثخين ان يتمسك على الساق من غير ان يشد بشئ) هكذا فسروه كلهم وينبغى ان يقيد بما اذا لم يكن ضيقا فانه نشاهد ما يكون فيه ضيق يتمسك على الساق من غير شد-والحد بعدم جذب الماء اقرب-وبما يمكن فيه متابعة المشى اصوب-وقد ذكر نجم الدين زاهدى عن شمس الائمة الحلوانى ان الجوارب من الغزل والشعر ما كان رقيقا منها لا يجوز المسح عليه اتفاقا الا ان يكون مجلدا او منعلا وما كان ثخينا منها فان لم يكن مجلدا او منعلا فمختلف فيه وما كان فلا خلاف فيه،ملتقطا”(حلبى كبير ص ۱۲۰ تا ۱۲۱)
تنوير الابصار اور اسکی شرح در مختار میں ہے(أو جوربيه)ولو من غزل أو شعر(الثخينين) بحيث يمشى فرسخا ويثبت على الساق بنفسه ولا يرى ما تحته ولا يشف الا ان ينفذ الى الخف قدر الغرض(در مختار مع رد المحتار ج ۱ ص ۴۵۱/دار الکتب العلميه،بيروت،لبنان)
اعلی حضرت امام احمد رضا رحمه اللہ رقمطراز ہیں : "سوتی یا اونی موزے جیسے ہمارے بلاد میں رائج ہیں ان پر مسح کسی کے نزدیک درست نہیں کہ نہ وہ مجلد ہیں یعنی ٹخنوں تک چمڑا منڈھے ہوئے نہ منعل یعنی تلا چمڑے کا لگا ہو نہ ثخین یعنی ایسے دبیز ومحکم کہ تنہا انہیں کو پہن کر قطع مسافت کریں تو شق نہ ہوجائیں اور ساق پر اپنے دبیز ہونے کے سبب بے بندش کے رکے رہیں ڈھلک نہ آئیں اور ان پر پانی پڑے تو روک لیں فورا پاؤں کی طرف چھن نہ جائے جو پائتابے ان تینوں وصف مجلد منعل ثخین سےخالی ہوں ان پر مسح بالاتفاق ناجائز ہے ۔ ہاں اگر ان پر چمڑا منڈھا لیں یا چمڑے کا تلا لگا لیں تو بالاتفاق یا شاید کہیں اس طرح کے دبیز بنائے جائیں تو صاحبین کے نزدیک مسح جائز ہوگا اور اسی پر فتوی ہے”
(احکام شریعت ص ۲۴۴ تا ۲۴۵/ناشر: امام احمد رضا اکیڈمی صالح نگر بریلی شریف)
علامہ صدر الشریعہ بدر الطریقہ رحمة الله عليه تحریر فرماتے ہیں”(موزہ )چمڑے کا ہو یا صرف تلا چمڑے کا اور باقی کسی اور دبیز چیز کا جیسے کرمچ وغیرہ-ہندستان میں جو عموما سوتی یا اونی موزے پہنے جاتے ہیں ان پر مسح جائز نہیں ان کو اتار کر پاؤں دھونا فرض ہے”(بہار شریعت ج ۱ ح ۲ ص۳۶۴/مکتبة المدينه دعوت اسلامی)واللہ تعالی اعلم بالحق والصواب
کتبہ محمد ارشاد رضا علیمی غفرلہ خادم دار العلوم نظامیہ،نیروجال،راجوری،جموں وکشمیر
۲۶/جمادی الاولی ۱۴۴۳ھ مطابق ۳۱/دسمبر ۲۰۲۱ء
الجواب صحيح محمد نظام الدین قادری خادم درس وافتا جامعہ علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی