تجارت اور بزنس کے لئے بینک سے (سود) پیسہ لینا کیسا ہے ؟

تجارت اور بزنس کے لئے بینک سے (سود) پیسہ لینا کیسا ہے ؟

سوال : زید کاروباری آدمی ہے اور دولت مند بھی ہے مگر تجارت کو وسیع کرنے کی غرض سے سودی روپیہ سرکاری بینک سے لینا چاہتا ہے۔ کیا یہ رقم اس کے لئے روا ہے؟ اور اس سے تجارت جائز ہے ؟ ازراہ کرم مفصل جواب عنایت فرمائیں ۔

الجوابـــــــــــــــــــــــــــ

یہاں کے کفار حربی ہیں جیسا کہ رئیس الفقہاء حضرت ملا جیون رحمۃ اللہ تعالی علیہ تحریر فرماتے ہیں ۔ ان ھم الا حربی وما یعقلھا الا العالمون ( تفسیرات احمدیہ صفحہ٣٠٠) اور حکومت انہیں کافروں کی ہے اور مسلمانوں و کافر حربی کے درمیان سود نہیں جیسا کہ حدیث شریف میں ہے ۔ لاربابین المسلم والحربی فی دار الحرب ۔ اور دارالحرب کی قید واقعی ہے نہ کہ احترازی لہذا یہاں کی حکومت کے بینکوں سے نفع لینا جائز ہے کہ وہ شرعاً سود نہیں لیکن ان کو نفع دینا جائز نہیں ہاں اگر تھوڑا نفع دینے میں اپنا نفع زیادہ ہو تو جائز ہے جیسا کہ ردالمحتار جلد چہارم صفحہ١٨٨ میں ہے "الظاھران الا باحۃ یفید نیل المسم الزیادۃ وقدالزم الا صحاب فی الدرس ان مرادھم من حل الرباوالقمار ما اذا حصلت الزیادۃ للمسم ۔

وھو تعالی اعلم ۔
کتبــــــــہ : مفتی جلال الدین احمد الامجدی

Leave a Reply