بدھ کے دن ناخن کاٹنے کا حکم ازحضرت علامہ کمال احمد علیمی استاذ جامعہ علیمیہ جمدا شاہی بستی

بدھ کے دن ناخن کاٹنے کا حکم

حضرت علامہ کمال احمد علیمی استاذ جامعہ علیمیہ جمدا شاہی بستی

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماۓ دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ حضور اعلی حضرت سے اس طرح کا سوال کیا گیا کہ ایک حدیث میں بدھ کے دن ناخن کاٹنے کی ممانعت آئ اور دوسری حدیث میں بدھ کے دن ناخن کاٹنے کی فضیلت آئ، ان دونوں روایتوں میں تطبیق یا ترجیح کی کیا صورت ہے اور بدھ کے دن ناخن تراشنا کیسا ہوگا اس کے جواب میں اعلی حضرت علیہ الرحمتہ والرضوان فرماتے ہیں : ناخن کاٹنے سے متعلق کسی دن کوئ ممانعت نہیں، اس لۓ کہ دن کی تعیین میں کوئ حدیث صحیح ثابت نہیں، البتہ بعض ضعیف حدیثوں میں بدھ کے دن ناخن کاٹنے کی ممانعت ہے، لہذا اگر بدھ کا دن وجوب کا دن آجاۓ، مثلا انتالیس دن سے نہیں تراشتے تھے، آج بدھ کو چالیسواں دن ہے، اگر آج نہیں تراشتا تو چالیس دن سے زائد ہو جائیں گے،تواس پر واجب ہوگا کہ بدھ کے دن تراشے اس لۓ کہ چالیس سے زائد ناخن رکھنا ناجائزو مکروہ تحریمی ہے۔ اور اگر مذکورہ صورت نہ ہو تو بدھ کے علاوہ کسی اور دن تراشنا مناسب کہ جانب منع کو ترجیح رہتی ہے

(حاشیہ بہارشریعت حصہ 16 ص 583 دعوت اسلامی(حوالہ فتاوٰی رضویہ ، ج 22،ص 685، ملخصاً)

اور عید کے دن ناخن تراشنا مستحب ہے۔

اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ اگر بدھ ہی کے دن عید پڑجاۓ، اور وجوب کا دن نہ آۓتو ایسی صورت میں عید کے دن ناخن کاٹے یا کسی اور دن اور اگر وجوب کا دن آۓ تو کیا کرے۔بینوا توجروا۔

المستفتی : حافظ ابرار احمد علیمی اسلام پورہ بستی

18 /ذوالحجہ 1442


الجواب باسم الذی یھدی الی الصواب

صورت مستفسرہ میں ناخن کاٹنا نامناسب ہے،کیوں کہ ممانعت اور استحباب میں تعارض کی صورت میں ترجیح ممانعت کو دی جائے گی، ہاں اگر عید ہی کے دن ناخن کاٹنا واجب ہو جائے تو کاٹنا واجب ہوگا،علامہ ابن نجیم مصری فرماتے ہیں :

"اذا تعارض المانع والمقتضی فانہ یقدم المانع” (الاشباہ والنظائر ص 100 مطبع دارالکتب العلمیہ بیروت)

جب مانع اور مقتضی میں تعارض ہو تو مانع کو مقدم رکھا جائے گا.

صورت مسئولہ میں استحباب مقتضی اور وہ احادیث(اگرچہ وہ ضعیف ہیں) جن سے بدھ کے روز ناخن کاٹنے کی ممانعت ثابت ہے وہ مانع ہیں، اس لیے جانب منع کو ترجیح دی جائے گی اور یوم مذکور فی السؤال کو ناخن کاٹنا نامناسب ہوگا.

امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ سے بدھ کے دن ناخن کاٹنے سے متعلق ایک استفتا ہوا، استفتا اور اس کا جواب ملاحظہ فرمائیں :

مسئلہ ۲۰۳: مسئولہ محمد حسین شاگرد رشید احمد گنگوہی ۲۵ شوال ۱۳۰۸ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ بدھ کے دن ناخن کتروانا چاہئے یا نہیں؟ اگر نہ چاہئے تو اس کی وجہ کیا ہے؟ بینوا توجروا(بیان فرماؤ اور اجر پاؤ۔ت)

الجواب:

نہ چاہئے،حدیث میں اس سے نہی آئی کہ معاذﷲ مورث برص ہوتاہے۔بعض علماء رحمہم اﷲ تعالٰی نے بدھ کو ناخن کتروائے، کسی نے بربنائے حدیث منع کیا،فرمایا صحیح نہ ہوئی،فورا برص ہوگئی،شب کو زیارت جمال بے مثال حضور پر نور محبوب ذی الجلال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے مشرف ہوئے، شافی کافی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے حضور اپنے حال کی شکایت عرض کی، حضور والا صلی ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے نہ سنا تھا کہ ہم نے اس سے نہی فرمائی ہے۔عرض کی حدیث میرے نزدیك صحت کو نہ پہنچی،ارشادہوا تمھیں اتنا کافی تھا کہ یہ حدیث ہمارے نام پاك سے تمھارے کان تک پہنچی،یہ فرماکر حضور مبرئ الاکمہ والابرص ومحی الموتی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم(حضور اندھوں کوڑھیوں اور مردوں کو صحت وحیات بخشے والی ہستی پر ﷲ تعالٰی کی رحمت اور سلام ہو۔ت)نے اپنا دست اقدس کہ پناہ دوجہاں ودستگیر بیکساں ہے ان کے بدن پر لگایا فورا اچھے ہوگئے اور اسی وقت سے تو بہ کی کہ اب کبھی حدیث سن کر ایسی مخالفت نہ کروں گا،

علامہ شہاب الدین خفاجی مصری حنفی رحمۃ ﷲ تعالٰی علیہ نسیم الریاض شرح شفائے قاضی عیاض میں فرماتے ہیں:

"قص الاظفار وتقلیمھا سنۃ ورد النھی عنہ فی یوم الاربعاء وانہ یورث البرص و حکی عن بعض العلماء انہ فعلہ فنھی عنہ فقال لم یثبت ھذا فلحقہ البرص من ساعتہ فرای النبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم فی منامہ فشکی الیہ مااصابہ فقال لہ الم تسمع النھی عنہ فقال لم یصح عندی فقال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یکفیك انہ سمع ثم مسح بیدہ الشریفۃ فذھب مابہ فتاب عن مخالفۃ ماسمع اھ”

ناخن کاٹنے سنت ہیں لیکن بدھ کے دن ایساکرنے سے حدیث میں ممانعت وارد ہوئی کیونکہ اس سے مرض برص(جسم پر سفید داغ پیداہوتا ہے۔بعض اہل علم کی حکایت ہے کہ انھوں نے بدھ کے روز ناخن کٹوائے انھیں اس سے منع کیا گیا لیکن انھوں نے فرمایا یہ حدیث ثابت نہیں،انھیں فورا مرض برص لاحق ہوگیا پھر انھیں خواب میں حضور صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی زیارت ہوئی اور انھوں نے آپ سے مرض برص کی شکایت کی آپ نے ان سے فرمایا کیا تم نے بدھ کے روز ناخن کٹوانے کی ممانعت نہیں سنی تھی؟ انھوں نے جوابًا عرض کیا کہ ہمارے نزدیك وہ حدیث پایہ صحت کو نہیں پہنچی تھی۔ اس پر حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمھارے لئے اتنا ہی کافی ہونا چاہئے تھا کہ حدیث سن لی تھی۔ازاں بعد آپ نے اپنا دست اقدس ان کے جسم پر پھیرا تو فورا مرض زائل ہوگیا۔اس کے بعد عالم موصوف نے اسی وقت سماع کردہ حدیث کی مخالفت سے توبہ کی اھ(ت)

یہ بعض علماء امام علامہ ابن الحاج مکی مالکی قدس سرہ العزیز تھے.(فتاوی رضویہ ج ٢٢-ص ،،٥٨٦-٥٨٧)

مذکورہ بالا تفصیلی فتویٰ سے ثابت ہوا کہ حدیث شریف میں بدھ کے دن ناخن کاٹنے سے منع کیا گیا، ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ عدم وجوب کی صورت میں جانب منع ہی کو ترجیح دی جائے گی، جیسا کہ امام اہل سنت کے اس قول سے ظاہر ہے:

”ناخن کاٹنے سے متعلق کسی دن کوئی ممانعت نہیں، اس ليے کہ دن کی تعیین میں کوئی حدیث صحیح ثابت نہیں، البتہ بعض ضعیف حدیثوں میں بدھ کے دن ناخن کاٹنے کی ممانعت ہے، لہٰذا اگر بدھ کے دن وجوب کا دن آجائے، مثلاً انتالیس دن سے نہیں تراشے تھے، آج بد ھ کو چالیسواں دن ہے، اگر آج نہیں تراشتا تو چالیس دن سے زائد ہوجائیں گے، تو اس پر واجب ہوگا کہ بدھ کے دن تراشے اس لیے کہ چالیس دن سے زائد ناخن رکھنا ناجائز و مکروہ تحریمی ہے۔ اور اگرمذکورہ صورت نہ ہو تو بدھ کے علاوہ کسی اور دن تراشنا مناسب کہ جانب منع کو ترجیح رہتی ہے۔”

(”فتاویٰ رضویہ”،ج۲۲،ص۶۸۵، ملخصاً)

مذکورہ قول امام سے ثابت ہوا کہ بعض( ضعیف) احادیث سے بدھ کے دن ناخن کاٹنے ممانعت ثابت ہے تو اس ممانعت کا لحاظ کرنا ہی مناسب ہے، لہذا عید کے دن اگرچہ ناخن کاٹنا مستحب ہے مگر عید اگر بدھ کے دن پڑجائے تو مناسب یہ ہے کہ ایک دن بعد ناخون تراش لے، بشرطے کہ عید کا دن چالیسواں دن نہ ہو ورنہ ایک دن پہلے کرنا ہوگا.

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ کمال احمد علیمی نظامی

جامعہ علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی انڈیا

١٩ذوالحجہ ١٤٤٢ھ/٣٠ جولائی ٢٠٢١

الجواب صحیح محمد نظام الدین قادری خادم درس و افتاء جامعہ علیمیہ جمدا شاہی

Leave a Reply