بوسیدہ ناقابلِ استعمال مصحف شریف کیا کیا جائے؟
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ حضرت
سوال : شیشے میں قرآنی آیات لکھی ہوئی ہیں اور وہ شیشہ اب قابل استعمال نہیں ہے ایسی صورت میں اس شیشے کو کیا کیا جائے ؟
مثلا ہم اسکو متعدد حصوں میں تقسیم کر کے بہتے ہوئے پانی میں داخل کر سکتے ہیں ؟
محمد نورانی عبدل (ہالینڈ)
الجواب :
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ۔
کسی چیز پر قرآن پاک کی آیات لکھی ہوں تو اس کے لیےقرآن مجید اور مصحف شریف کے احکام ثابت ہوتے ہیں۔اور مصحف شریف اگر قابلِ استعمال نہ رہ جائے تو فقہائے کرام نے اس کے بارے میں یہ تحریر فرمایا ہے کہ اس کو کپڑے میں لپیٹ کرکسی احتیاط کی جگہ دفن کردیا جائے جو چلنے پھرنے کی جگہ نہ ہو اور جہاں نجاست یا کوڑا کرکٹ ڈالا جاتا ہو اور اس کے دفن کے لیے مسلم کی طرح لحد والی قبر بنائی جائے یاصندوق کی شکل میں قبر بنائی جائے اور اوپر لکڑی کے تختے لگائے جائیں ۔ تاکہ اس پر مٹی نہ پڑے ۔ لیکن لحد بنانا بہتر ہے کیوں کہ صندوق والی قبر کے منہدم ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
امامِ اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز سے بوسیدہ مصحف شریف کے اوراق کے بارے میں سوال کیا گیا کہ "کیا ان کو جلا کر کسی جاری پانی میں ڈالا جائے یا بے جلائے کسی کپڑے میں مع پتھر کے باندھ کر کنویں میں ڈالا جائے؟”
تو آپ نے تحریر فرمایا:
"اسے مثلِ مسلم دفن کریں، یعنی ان اوراق کو جمع کرکے پاک کپڑے میں لپیٹیں اور ایسی جگہ جہاں پاؤں نہ پڑتا ہو، عمیق بغلی قبر اس کے لائق کھود کر اس میں سپرد کردیں ۔
درمختارمیں ہے: المصحف اذا صار بحال لایقرأ فیہ یدفن کالمسلم ۔
ردالمحتار میں ہے :ای یجعل فی خرقۃ طاھرۃ یدفن فی محل غیر ممتھن لایؤطأ، وفی الذخیرۃ : وینبغی ان یلحد لہ ولا یشق لہ؛ لانہ یحتاج الی اھالۃ التراب علیہ، وفی ذٰلک نوع تحقیر ، الا اذا جعل فوقہ سقفا بحیث لایصل الیہ فھو حسن ایضا” اھ
اقول: الشق قد ینھدم فاللحد اولٰی۔”(فتاوی رضویہ ج٩ ص٢۵٧)
نیز ایک دوسرے مقام پر تحریر فرماتے ہیں:
"مصحفِ کریم کا احراق جائز نہیں، نص علیہ فی الدر المختار، بلکہ حفاظت کی جگہ دفن کیا جائے، جہاں پاوں نہ پڑے”۔
(فتاوی رضویہ ج٩ص٧٢)
فتاوٰی عالمگیری میں ہے:
"المصحف اذا صار خلقا لایقرؤ منہ ویخاف ان یضیع یجعل فی خرقۃ طاھرۃ ویدفن ، ودفنہ اولی من وضعہ موضعا یخاف ان یقع علیہ النجاسۃ اونحو ذٰلک، ویلحد لہ لانہ لو شق ودفن یحتاج الی اھالۃ التراب علیہ فی ذٰلک نوع تحقیر الا اذا جعل فوقہ سقف بحیث لایصل التراب الیہ فھو حسن ایضا۔ کذا فی الغرائب” ۔
(فتاوی عالم گیری ج ۵ص٣٢٣ )
صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
"قرآن مجید پرانا بوسیدہ ہوگیا اس قابل نہ رہا کہ اس میں تلاوت کی جائے اور یہ اندیشہ ہے کہ اس کے اوراق منتشر ہو کر ضائع ہوں گے، توکسی پاک کپڑے میں لپیٹ کر احتیاط کی جگہ دفن کردیا جائے اور دفن کرنے میں اس کے لیے لحد بنائی جائے، تاکہ اس پر مٹی نہ پڑے یا اس پر تختہ لگا کر چھت بنا کر مٹی ڈالیں کہ اس پر مٹی نہ پڑے۔ مصحف شریف بوسیدہ ہوجائے تو اس کو جلایا نہ جائے”
(بہار شریعت ح ١٦ص۴٩٨) واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔
کتبہ: مفتی محمد نظام الدین قادری: خادم درس وافتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی۔
١۴/ربیع الاول ١۴۴٣ھ //٢١/اکتوبر٢٠٢٢ء