ایک بھائی کی کمائی میں دوسرے بھائی کا حصہ ہے کہ نہیں؟
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
استاذ محترم حضرت علامہ مولانا کمال احمد علیمی نظامی زیدہ مجدہ کی بارگاہ میں عرض ہے کہ اس مسئلے کی وضاحت فرمائیں کہ بھائی کا بھائی کی کمائی اور اس کی پراپرٹی میں کیا حق ہے، جب کہ والد صاحب کے انتقال کو ١٥ سال گزر چکے اور زید اپنے بھائیوں کو اپنے والد کے ورثہ میں حصہ دینے کے لیے راضی ہے لیکن اس کے بھائی اس کی کما کر بنائی ہوئی پراپرٹی میں اپنا حق مانگ رہے ہیں.
واضح رہے کہ پانچ بھائیوں میں سے ایک بھائی زید کے ساتھ اس کے کاروبار میں معاون تھا باقی تین اپنے اپنے کاروبار میں لگے ہوئے تھے.
اب بھائی کی پراپرٹی میں ان کا شرعی طور پر کیا حق ہو سکتا ہے وضاحت فرمائیں.
سائل : اظہر علیمی ممبئی
الجواب بعون الملک الوھاب
شرعی طور سے ایک بھائی کی کمائی اور اس کی ذاتی پراپرٹی میں بھائی کا کوئی حصہ نہیں ہوتا ہے.
اصل یہ ہے کہ بالغ لڑکا اگر اپنے مستقل ذریعہ کسب سے کوئی چیز حاصل کرتا ہے تو وہی اس کا مالک ہوتا ہے۔اور اگر اس کا خوردونوش باپ کے ذمہ ہو اور وہ باپ کا معین ومددگار بن کر تجارت وزراعت وغیرہ کرتا ہے تو جملہ اسباب تجارت و زراعت کا مالک باپ ہوتا ہے بیٹا صرف معاون کے طور پر شریک کار مانا جائے گا۔ اور اگر باپ کے انتقال کے بعد یکجائی میں رہتے ہوئے باپ کی متروکہ جائیداد سے کمائی ہوئی تو اس میں تمام وارثین کا حصہ ہے۔ ہاں اگر کسی نے اپنے غیر مشترکہ خاص مال یا ملازمت سے کوئی مال حاصل کیا تو وہی اس کا مالک ہوگا۔ اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں:
"تجارت زراعت وغیرہا جس کام میں فرزند نے اپنے باپ کی اعانت ومددگاری کے طور پر کچھ کمایا وہ صرف ملک پدر ہے یعنی جب تک اس کا خورد ونوش ذمہ پدر تھا اور اپنا کوئی ذاتی مال وکسب جداگانہ نہ رکھتاتھا بلکہ اسے حرفت وکسب پدری میں جس طرح سعید بیٹے اپنے باپ کی اعانت کرتے اور اسے کام کی تکلیف سے محفوظ رکھتے ہیں اس کا معین ومددگار تھا تو جو کچھ ایسی وجہ وحالت میں کمایا سب باپ کا ہے جس میں بیٹے کے لئے کوئی حق ملک نہیں، فتاوٰی خیریہ پھر عقو دالدریہ میں ہے:حیث کان من جملۃ عیالہ والمعینین لہ فی امورہ واحوالہ فجمیع ماحصلہ بکدہ وتعبہ فھو ملک خاص لابیہ لاشیئ لہ فیہ حیث لم یکن لہ مال ولو اجتمع لہ بالکسب جملۃ اموال لانہ فی ذٰلک لابیہ معین حتی لو غرس شجرۃ فی ھذہ الحالۃ فھی لابیہ نص علیہ علماؤنا حمھم ﷲ تعالٰی۔
اور جو کچھ مال اس کے سوا پیدا کیا یعنی اس زمانہ میں کہ اس کا خورد ونوش باپ سے جدا تھا یا اپنے ذاتی مال سے کوئی تجارت کی یا کسب پدری سے الگ کوئی کسب خاص مستقل اپنا کیا جیسے صورت مستفسرہ میں نوکری کا روپیہ یہ اموال خاص بیٹے کے ٹھہریں گے۔خیریہ وعقود میں ہے : سئل فی ابن کبیرذی زوجۃ وعیال لہ کسب مستقل حصل بسببہ اموالا ھل ھی لوالدہ اجاب ھی للابن حیث لہ کسب مستقل واما قول علمائنا یکون کلہ للاب فمشروط کما یعلم من عبارتھم بشروط منھا اتحاد الصنعۃ وعدم مال سابق لھما وکون الابن فی عیال ابیہ فاذاعدم واحدمنھا لایکون کسب الابن للاب وانظر الی ماعللوابہ المسألۃ ان الابن اذاکان فی عیال الاب یکون معینا لہ فمدارالحکم علی ثبوت کونہ معینا لہ فیہ فاعلم ذٰلک اھ ملخصاً”۔(فتاوی رضویہ حصہ٧ ص ٣٢۴)
صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
"ہندوستان میں عموماً ایسا ہوتا ہے کہ باپ کے مرجانے کے بعد اُسکے تمام بیٹے ترکہ پر قابض ہوتے ہیں اور یکجائی شرکت میں کام کرتے رہتے ہیں لینا دینا تجارت زراعت کھانا پینا ایک ساتھ مدتوں رہتا ہے اور کبھی یہ ہوتا ہے کہ بڑا لڑکاخود مختار ہوتا ہے وہ خود جو چاہتا ہے کرتا ہے اور اُسکے دوسرے بھائی اُسکی ماتحتی میں اُس بڑے کے رائے و مشورہ سے کام کرتے ہیں مگر یہاں نہ لفظ مفاوضہ کی تصریح ہوتی ہے اور نہ اُس کی ضروریات کا بیان ہوتا ہے اور مال بھی عموماًمختلف قسم کے ہوتے ہیں اور علاوہ روپے اشرفی کے متاع اور اثاثہ اور دوسری چیزیں بھی ترکہ میں ہوتی ہیں ۔ جن میں یہ سب شریک ہیں ، لہٰذا یہ شرکت شرکتِ مفاوضہ نہیں بلکہ یہ شرکت ملک ہے اور اس صورت میں جو کچھ تجارت و زراعت اور کاروبار کے ذریعہ سے اضافہ کریں گے اُس میں یہ سب برابر کے شریک ہیں اگرچہ کسی نے زیادہ کام کیا ہےاور کسی نے کم۔ اور کوئی دانائی و ہوشیاری سے کام کرتا ہے اور کوئی ایسا نہیں۔ اور اگر ان شرکا میں سے بعض نے کوئی چیز خاص اپنے لیے خریدی اور اُس کی قیمت مال مشترک سے اداکی تو یہ چیز اُسی کی ہوگی مگر ِمشترک سے دی ہے، لہٰذا بقیہ شرکا کے حصہ کا تاوان دینا ہوگا”۔(بہار شریعت ح١٠ ص۴٩٦ )
ہاں اگر جذبہ اخوت اور صلہ رحمی کے تحت اگر زید اپنے بھائیوں کو کچھ دے دے یا ان پر اپنی کمائی خرچ کرے تو یہ عمل مستحسن ہے، قرآن مجید میں ارشاد :
وَٱلَّذِينَ تَبَوَّءُو ٱلدَّارَ وَٱلۡإِيمَٰنَ مِن قَبۡلِهِمۡ يُحِبُّونَ مَنۡ هَاجَرَ إِلَيۡهِمۡ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمۡ حَاجَةٗ مِّمَّآ أُوتُواْ وَيُؤۡثِرُونَ عَلَىٰٓ أَنفُسِهِمۡ وَلَوۡ كَانَ بِهِمۡ خَصَاصَةٞۚ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفۡسِهِۦ فَأُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡمُفۡلِحُونَ (الحشر:9)
حدیث شریف میں ہے :
حضرت جابر بن سمرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا جس کو مال دے تو خود اپنے اور گھر والوں پر خرچ کرے (مسلم شریف. حدیث نمبر: ١٨٢٢،کتاب الامارۃ)
یوں ہی اگر باپ تنگ دست ہو؛ اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہوں اور بڑا بھائی خوش حال ہو تو ایسی صورت میں اس پر باپ اور چھوٹے بھائیوں کا نفقہ واجب ہے، چنانچہ البحرالرائق ج ٤ص٢٢٨ میں ہے :
"(قوله: ولقريب محرم فقير عاجز عن الكسب بقدر الإرث لو موسرًا) أي تجب النفقة للقريب إلى آخره؛ لأن الصلة في القرابة القريبة واجبة دون البعيد”.
بہار شریعت میں ہے :
باپ اگر تنگ دست ہو اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہوں اوریہ بچے محتاج ہوں اور بڑا بیٹا مال دار ہے تو باپ اور اس کی سب اولاد کا نفقہ اس پر واجب ہے (حصہ ہشتم ص٢٧٧)
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ : کمال احمد علیمی نظامی جامعہ علیمیہ جمدا شاہی بستی
١٩صفر١٤٤٣ /٢٧ستمبر ٢٠٢١
الجواب صحیح محمد نظام الدین قادری خادم درس و افتاء جامعہ علیمیہ جمدا شاہی