اپنی بیٹی کے ساتھ بدفعلی کرنے والے کے ساتھ کیا سلوک کیا جاے
سوال : ایک بندے نے معاذاللہ اپنی بیٹی کے ساتھ بدفعلی کی ہے بقول ان کی بیٹی کے، جو نیک سیرت عاقلہ اور بالغہ ہے اور قرائن بھی واضح ہیں، لیکن گواہ نہیں ہیں، پھر وہاں کے علماء نے اس بندے سے قرآنِ پاک سر پر اٹھوا کر اس بارے میں پوچھا تو اس نے انکار کیا جبکہ اس کی بیٹی نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ اس نے میرے ساتھ زیادتی کی ہے، اس کے بعد مقامی علماء نے گواہ نہ ہونے کی وجہ سے اس بندے کو ان کی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ رہنے کی اجازت دی ہے ۔
دریافت طلب امور یہ ہیں :
1- اس بندے سے بائیکاٹ کا کیا حکم ہے ؟
2- اس کی بیوی خوف زدہ ہے کہ کہیں حرمتِ مصاہرت لازم نہ آئی ہو، ایسی صورت میں اس کی بیوی کا اس کے ساتھ رہنے کا کیا حکم ہے ؟
3- لوگوں کو اور خود گھر والوں کو یقین ہے کہ اس نے یہ کام کیا ہے، اب اس کی توبہ کی کیا صورت ہو سکتی ہے، وہ چھپ کر توبہ کرے یا جن کو اس معاملے کا علم ہے، ان کو بتانا ضروری ہے ؟
4- ان مقامی علماء کا یہ فیصلہ شریعت کے رو سے کیسا ہے ؟
سائل : محمد محمود مدنی شہر تونسہ شریف
بسمہ تعالیٰ
الجواب بعون الملک الوھّاب
اللھم ھدایۃ الحق و الصواب
صورتِ مسئولہ (پوچھی گئی صورت) میں مذکورہ شخص کے خلاف اس کی بیٹی نے جو بدکاری کا دعوی کیا ہے تو چونکہ وہ اپنے اس دعوے و بیان میں اکیلی ہے لہٰذا اپنے باپ کے خلاف اس کا اکیلا بیان کوئی چیز نہیں، جب تک اس کا باپ اس کی تصدیق نہ کرے، اس کی بیٹی کے بیان سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہ ہوگی ۔
اور جب حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوئی تو اس کی بیوی کا اس کے ساتھ رہنا بالکل جائز ہے اور دیگر لوگوں کا اس سے بائیکاٹ کرنا بھی درست نہیں اور جن علماءِ کرام نے حرمتِ مصاہرت ثابت نہ ہونے کا قول کیا ہے، وہ بھی شریعت کے مطابق اور درست ہے۔
چنانچہ علامہ علاءالدین محمد بن علی حصکفی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"لان الحرمۃ لیست الیھا۔ قالوا : و بہ یفتی فی جمیع الوجوہ۔ بزازیہ”
یعنی اس لئے کہ حرمت کا فیصلہ عورت کے سپرد نہیں ہے، فقہاء کرام نے فرمایا : تمام صورتوں میں اسی پر فتوٰی ہے، بزازیہ۔
(ردالمحتار علی الدرالمختار، کتاب النکاح، باب الرضاع، جلد 9، صفحہ 408، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
تنویر الابصار مع درمختار میں ہے :
"(وان ادعت الشھوۃ) فی تقبیلہ او تقبیلھا ابنہ (و انکرھا الرجل فھو مصدق) لا ھی (الا ان یقول الیھا منتشرا) آلتہ (فیعانقھا) لقرینۃ کذبہ او یاخذ ثدیھا او یرکب معھا او یمسھا علی الفرج او یقبلھا علی الفم”
یعنی اور اگر عورت نے مردکے بوسہ لینے میں یا اس کے بیٹے کا بوسہ لینے میں شہوت کا دعویٰ کیا اور مرد نے اس کا انکار کیا تو مرد کی تصدیق کی جائے گا، نہ کہ عورت کی، مگر یہ کہ مرد کہے کہ عورت کی جانب اس کا آلہ منتشر تھا پس اس نے عورت کو گلے لگایا (تو دعوی شہوت میں عورت کی تصدیق کی جائے گی) مرد کے جھوٹا ہونے کے قرینہ کی وجہ سے یا مرد عورت کے پستانوں کو پکڑے یا عورت کے ساتھ (کسی سواری پر) سوار ہو یا، عورت کی شرمگاہ کو چھوئے یا عورت کے منہ یعنی لب کا بوسہ لیا (تو دعوی شہوت میں عورت کی تصدیق کی جائے گی۔)
(ردالمحتار علی الدرالمختار، کتاب النکاح، فصل في المحرمات، جلد 4، صفحہ 121، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا کہ ایک منکوحہ لڑکی کی ماں نے دعویٰ کیا کہ میری لڑکی کے شوہر نے مجھ سے بدنیتی کا ارادہ کیا لیکن اس کی لڑکی کا شوہر اپنی بےقصوری پر قسمیں کھاتا ہے تو کیا اس کا نکاح قائم رہا یا نہیں؟
تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواباً تحریر فرمایا :
"تنہا ایک عورت کا بیان اصلاً قابلِ سماعت نہیں۔
قال اللہ تعالٰی (اللہ تعالیٰ نے فرمایا) :
"و اشھدوا ذوی عدل منکم”
(اپنے دو عادل (ثقہ) گواہ بناؤ۔)
(پارہ 28، سورۃ الطلاق : 2)
نکاحِ بکر یقینا قائم ہے۔”
(فتاویٰ رضویہ، جلد 11، صفحہ 323، رضا،فاؤنڈیشن لاہور)
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"عورت نے دعویٰ کیا کہ مرد نے اس کے اصول یا فروع کو بشہوت چھوا یا بوسہ لیا یا کوئی اور بات کی ہے، جس سے حرمت ثابت ہوتی ہے اور مرد نے انکار کیا تو قول مرد کا لیا جائے گا یعنی جبکہ عورت گواہ نہ پیش کرسکے۔”
(بہارِ شریعت، محرمات کا بیان، جلد 2، حصہ 7، صفحہ 26، 27، مکتبۃ المدینہ کراچی)
نوٹ :
اگر مذکورہ شخص بیوی کے سامنے اقرار کرلیتا ہے کہ میں نے اپنی بیٹی سے بدکاری کی ہے لیکن بیوی کے پاس اس کے اقرار پر گواہ نہ ہوں اور شوہر مفتی یا قاضی کے پاس انکار کر دیتا ہے تو پھر بھی حرمتِ مصاہرت ثابت نہ ہونے کا فیصلہ کیا جائے گا لیکن بیوی کے لئے جائز نہیں ہوگا کہ وہ اس کے ساتھ رہے، وہ پوری کوشش کر کے طلاق لے کر یا خلع لے کر اس سے اپنی جان چھڑائے، اگر اس طرح بھی جان نہ چھوڑے تو جس طرح ممکن ہو اس سے دور رہے اور اس کو اپنے اوپر قابو نہ دے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو کبھی بھی اپنی خواہش سے اس کے ساتھ میاں بیوی والا برتاؤ نہ کرے۔
چنانچہ فقیہِ ملت حضرت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"اگر زید نے واقعی طلاق دے دی ہے تو جھوٹی قسم کا وبال اس پر ہوگا۔ ہندہ کو (تین) طلاق دینے کا یقین ہے تو جس طرح بھی ہو سکے روپیہ وغیرہ دیے کر زید سے چھٹکارا حاصل کرلے۔ اگر اس طرح بھی نہ چھوڑے تو جیسے بھی ممکن ہو اس سے دور ہے، اسے اپنے اوپر قابو نہ دے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو اپنی خواہش سے کبھی اس کے ساتھ میاں بیوی کا برتاؤ نہ کرے اور مزید کے مجبور کرنے پر راضی ہو اور نہ زید کے مجبور کرنے پر راضی ہو ورنہ وہ بھی سخت گناہگار لائقِ عذاب قہار ہوگی۔”
(فتاوی فیض رسول، جلد 2، صفحہ 238، شبیر برادرز لاہور)
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ والہ وسلم
کتبہ : مفتی ابواسیدعبیدرضامدنی
اسلام علیکم مفتی صاحب میرا سوال یہ ہے کہ زید اگر اپنی ساس کو شہوت سے چھوئے تو اس بات کا علم کسی کو نا ہو تو حرمت ثابت ہو گا یا نہیں یا جب تک اس بات کا اقرار نا کرے گا تو حرمت ثابت ہو گا