فضول اوربے فائدہ سوالات جو ہمیں منع کئے گئے ہیں
اب ہم فضول اور بے فائدہ سوالات کی کچھ اقسام بیان کرتے ہیں تاکہ آپ حضرات بھی اس قسم کے سوالات پوچھنے سے اجتناب کریں۔
پہلی صورت
ایسے سوالات جن میں کوئی دینی یا دنیوی فائدہ نہ ہو جیسا کہ حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ اور حضرت سالم رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ کی تعین کے لئے سوال کیا تھا۔
عَنْ أَبِی مُوسَی، قَالَ:سُئِلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ أَشْیَاء َ کَرِہَہَا، فَلَمَّا أُکْثِرَ عَلَیْہِ غَضِبَ، ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ:سَلُونِی عَمَّا شِئْتُمْ قَالَ رَجُلٌ:مَنْ أَبِی؟ قَالَ:أَبُوکَ حُذَافَۃُ فَقَامَ آخَرُ فَقَالَ:مَنْ أَبِی یَا رَسُولَ اللَّہِ؟ فَقَالَ: أَبُوکَ سَالِمٌ مَوْلَی شَیْبَۃَ فَلَمَّا رَأَی عُمَرُ مَا فِی وَجْہِہِ قَالَ:یَا رَسُولَ اللَّہِ، إِنَّا نَتُوبُ إِلَی اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوموسی الاشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺسے کچھ ایسی چیزوں کے بارے میں سوال کئے جوآپ ﷺکو پسندنہ تھے،پھرجب سوالات کی کثرت ہوئی توحضورتاجدارختم نبوتﷺسخت جلال میں آگئے اورفرمایا: پوچھو!کیاپوچھتے ہو؟ایک شخص نے کہاکہ یارسول اللہ ﷺ!میراباپ کون ہے؟ توآپﷺنے فرمایا: تیراباپ حذافہ ہے ۔دوسراآدمی کھڑاہوااورعرض کرنے لگا: یارسول اللہ ﷺ!میراباپ کون ہے ؟ توحضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: تیراباپ سالم جو شیبہ کاغلام ہے ۔جب حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکے چہرہ مبارکہ پرجلال کے آثاردیکھے توعرض کی : یارسول اللہ ﷺ!ہم اللہ تعالی کی بارگاہ میں توبہ کرتے ہیں۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۱:۳۰)
دوسری صورت
ضرورت پوری ہونے کے بعد بلاوجہ مزید سوالات کا سلسلہ جاری رکھنا جیسا کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے حج کی فرضیت کو بیان فرمایا تو ایک آدمی نے سوال کر دیا کہ ہر سال حج کرنا فرض ہے۔
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ:خَطَبَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ فَرَضَ اللہُ عَلَیْکُمُ الْحَجَّ، فَحُجُّوا، فَقَالَ رَجُلٌ: أَکُلَّ عَامٍ یَا رَسُولَ اللہِ؟ فَسَکَتَ حَتَّی قَالَہَا ثَلَاثًا، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَوْ قُلْتُ:نَعَمْ لَوَجَبَتْ۔ملخصاً۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے ہمیں خطبہ ارشادفرماتے ہوئے فرمایاکہ اے لوگو!اللہ تعالی نے تم پرحج فرض فرمایاہے توتم اس کے گھرکاحج کرو، ایک شخص ان میں سے عرض گزارہواکہ یارسول اللہ ﷺ!کیاہرسال حج فرض ہے توحضورتاجدارختم نبوتﷺنے خاموشی اختیارفرمالی یہاں تک کہ اس نے تین باریہی بات کی ، پھرحضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: اگرمیں ہاں کہہ دیتاتوہرسال حج فرض ہوجاتا۔۔۔
(مسلم :مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (۲:۹۷۵)
تیسری صورت
ایسے معاملات کے متعلق سوالات کرنا، جن کے متعلق شریعت کا کوئی حکم نازل نہیں ہوا بلکہ شارع علیہ السلام کا سکوت ہی اس کے جواز کے لئے کافی ہے۔ جیسا کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا:جس معاملہ کو میں نے چھوڑ دیا ہے تم بھی اسے چھوڑ دو، تم سے پہلے لوگ اس لئے ہلاک ہوئے کہ انہوں نے بلاوجہ اپنے انبیاء علیہم السلام سے اختلاف کر کے سوالات کی بھرمار کر دی تھی۔
ثُمَّ قَالَ: ذَرُونِی مَا تَرَکْتُکُمْ، فَإِنَّمَا ہَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ بِکَثْرَۃِ سُؤَالِہِمْ وَاخْتِلَافِہِمْ عَلَی أَنْبِیَائِہِمْ، فَإِذَا أَمَرْتُکُمْ بِشَیْء ٍ فَأْتُوا مِنْہُ مَا اسْتَطَعْتُمْ، وَإِذَا نَہَیْتُکُمْ عَنْ شَیْء ٍ فَدَعُوہُ۔
ترجمہ :پھرحضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: جس معاملے کومیں نے چھوڑدیاہے تم بھی اسے چھوڑے رکھو تم سے پہلے لوگ اس لئے ہلاک ہوئے کہ انہوں نے بلاوجہ اپنے انبیاء علیہم السلام سے اختلاف کر کے سوالات کی بھرمار کر دی تھی، پس جب میں تم کو کسی امرکاحکم دوں تواستطاعت بھراس پرعمل کرواورجب کسی کام سے منع کردوں تواس کو چھوڑدو۔
(مسلم :مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (۲:۹۷۵)
چوتھی صورت
مشکل ترین اور حساس معاملات کے متعلق سوالات کرنا تاکہ جواب دینے والا کسی الجھن اور پیچیدگی کا شکار ہو جائے۔ حدیث میں ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے معمہ جات اور پہیلیوں (اغلوطات)کی صورت میں سوالات کرنے سے منع فرمایا ہے۔
عَنْ الصُّنَابِحِیّ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَی عَنِ الغُلُوطَاتِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناالصنابحی رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیاکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے معمہ جات اور پہیلیوں (اغلوطات)کی صورت میں سوالات کرنے سے منع فرمایا ہے۔
(سنن أبی داود:أبو داود سلیمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشیر السَِّجِسْتانی (۳:۳۲۱)
پانچویں صورت
تعبدی احکام کی غرض و غایت اور اس کی علت سے متعلق سوال کرنا۔ جیسا کہ حضرت معاذہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا تھا کہ حائضہ عورت روزے کی قضاء تو دیتی ہے لیکن اس کے لئے نماز کی قضا دینا کیوں ضروری نہیں؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ سوال ناپسند کرتے ہوئے فرمایا تھا:تو حروریہ معلوم ہوتی ہے۔
عَنْ مُعَاذَۃَ، أَنَّ امْرَأَۃً سَأَلَتْ عَائِشَۃَ فَقَالَتْ: أَتَقْضِی إِحْدَانَا الصَّلَاۃَ أَیَّامَ مَحِیضِہَا؟ فَقَالَتْ عَائِشَۃُ: أَحَرُورِیَّۃٌ أَنْتِ؟ قَدْ کَانَتْ إِحْدَانَا تَحِیضُ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ لَا تُؤْمَرُ بِقَضَاء ٍ۔
ترجمہ :حضرت سیدتنامعاذہ رضی اللہ عنہا نے حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا تھا کہ حائضہ عورت روزے کی قضاء تو دیتی ہے لیکن اس کے لئے نماز کی قضا دینا کیوں ضروری نہیں؟ حضرت سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ سوال ناپسند کرتے ہوئے فرمایا تھا:تو حروریہ معلوم ہوتی ہے۔حضورتاجدارختم نبوتﷺکے زمانہ اقدس میں خواتین کوحیض آتاتھامگرحضورتاجدارختم نبوتﷺنے کبھی بھی خواتین کو نماز کی قضاکرنے کاحکم نہ دیا۔
(مسلم :مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (۱:۲۶۵)
چھٹی صورت
تکلف کرتے ہوئے کسی چیز کی گہرائی اور اس کی حقیقت کے متعلق سوال کرنا۔جیسا کہ حضرت سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے ایک حوض کے متعلق اس کے مالک سے دریافت کیا تھا کہ یہاں درندوں کی آمدورفت تو نہیں ہوتی؟ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس سوال کو ناپسند کرتے ہوئے فرمایا: تجھے اس کے متعلق ہمیں بتانے کی قطعا کوئی ضرورت نہیں۔
عَنْ یَحْیَی بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَاطِبٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَرَجَ فِی رَکْبٍ فِیہِمْ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ، حَتَّی وَرَدُوا حَوْضًا، فَقَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ:یَا صَاحِبَ الْحَوْضِ ہَلْ تَرِدُ حَوْضَکَ السِّبَاعُ؟ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رضی اللہ عنہ :یَا صَاحِبَ الْحَوْضِ لاَ تُخْبِرْنَا، فَإِنَّا نَرِدُ عَلَی السِّبَاعِ، وَتَرِدُ عَلَیْنَا.
ترجمہ :حضرت سیدنایحی بن عبدالرحمن ابن حاطب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ ایک لشکرکے ساتھ روانہ ہوئے ان میں حضرت سیدناعمروبن العاص رضی اللہ عنہ بھی تھے تویہ تمام لوگ ایک حوض پرپہنچے تو حضرت سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے حوض کے متعلق اس کے مالک سے دریافت کیا تھا کہ یہاں درندوں کی آمدورفت تو نہیں ہوتی؟ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس سوال کو ناپسند کرتے ہوئے فرمایا: تجھے اس کے متعلق ہمیں بتانے کی قطعا کوئی ضرورت نہیں۔
(موطأ الإمام مالک:مالک بن أنس بن مالک بن عامر الأصبحی المدنی (ا:۲۶)
ساتویں صورت
ایسے سوالات جن میں عقل کے ذریعے کتاب و سنت کی صریح نصوص کا رد مقصود ہو۔ جیسا کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ایک دفعہ شکم مادر میں قتل ہونے والے بچے کے متعلق فیصلہ فرمایا تھا کہ اس کے بدلے ایک لونڈی یا غلام تاوان دیا جائے، تو جس کے خلاف یہ فیصلہ ہوا کہنے لگا کہ میں اس بچے کا تاوان کیوں دوں جس نے کھایا ہے نہ پیا ہے اور نہ وہ بولا اور چلا ہے، ایسے بچے کا خون تو رائیگاں ہے۔ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے اس کے انداز گفتگو کو ناپسند کرتے ہوئے فرمایا:یہ تو کاہنوں کا بھائی معلوم ہوتا ہے۔
عَنِ ابْنِ الْمُسَیِّبِ، وَأَبِی سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: اقْتَتَلَتِ امْرَأَتَانِ مِنْ ہُذَیْلٍ، فَرَمَتْ إِحْدَاہُمَا الْأُخْرَی بِحَجَرٍ، فَقَتَلَتْہَا وَمَا فِی بَطْنِہَا، فَاخْتَصَمُوا إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَضَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ دِیَۃَ جَنِینِہَا غُرَّۃٌ عَبْدٌ أَوْ وَلِیدَۃٌ، وَقَضَی بِدِیَۃِ الْمَرْأَۃِ عَلَی عَاقِلَتِہَا، وَوَرَّثَہَا وَلَدَہَا وَمَنْ مَعَہُمْ، فَقَالَ حَمَلُ بْنُ النَّابِغَۃِ الْہُذَلِیُّ: یَا رَسُولَ اللہِ، کَیْفَ أَغْرَمُ مَنْ لَا شَرِبَ وَلَا أَکَلَ، وَلَا نَطَقَ وَلَا اسْتَہَلَّ، فَمِثْلُ ذَلِکَ یُطَلُّ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِنَّمَا ہَذَا مِنْ إِخْوَانِ الْکُہَّانِ، مِنْ أَجْلِ سَجْعِہِ الَّذِی سَجَعَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناسعیدبن مسیب رضی اللہ عنہ اورحضرت سیدناابوسلمہ بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ایک دفعہ شکم مادر میں قتل ہونے والے بچے کے متعلق فیصلہ فرمایا تھا کہ اس کے بدلے ایک لونڈی یا غلام تاوان دیا جائے، تو جس کے خلاف یہ فیصلہ ہوا کہنے لگا کہ میں اس بچے کا تاوان کیوں دوں جس نے کھایا ہے نہ پیا ہے اور نہ وہ بولا اور چلا ہے، ایسے بچے کا خون تو رائیگاں ہے۔ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے اس کے انداز گفتگو کو ناپسند کرتے ہوئے فرمایا:یہ تو کاہنوں کا بھائی معلوم ہوتا ہے۔
(مسلم :مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (۳:۹۰۱۳)
آٹھویں صورت
متشابہات کے متعلق سوالات کرنا بھی ممنوعہ قبیل سے ہے۔ جیسا کہ حضرت سیدنا امام مالک رضی اللہ عنہ کے سامنے کسی نے یہ آیت پڑھی:رحمٰن نے اپنے عرش پراستواء۔(طٰہٰ:۵)پھر امام مالک رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ ا لاستواء کیا ہوتا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: استواء تو معروف ہے، اس کی کیفیت نامعلوم ہے اور اس کے متعلق سوال کرنا بدعت ہے۔
وَمِنْ ذَلِکَ سُؤَالُ مَنْ سَأَلَ مَالِکًا عَنِ الِاسْتِوَاء ِ، فَقَالَ:الِاسْتِوَاء ُ مَعْلُومٌ، وَالْکَیْفِیَّۃُ مَجْہُولَۃٌ، وَالسُّؤَالُ عَنْہُ بِدَعَۃٌ۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام مالک رضی اللہ عنہ سے الاستواء کے متعلق سوال کیاگیاتو آپ رضی للہ عنہ نے فرمایاکہ الاستواء معلوم ہے اوراس کی کیفیت مجہول ہے اوراس کے متعلق سوال کرنابدعت ہے ۔
(رسالۃ السجزی إلی أہل زبید:عبید اللہ بن سعید بن حاتم السجزیّ الوائلی البکری، أبو نصر :۱۸۷)
نویں صورت
اسلاف یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے باہمی مشاجرات کے متعلق سوالات کرنا۔ جیسا کہ اہل صفین کے بارے میں حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا تو آپ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے ان کے خون سے میرے ہاتھوں کو محفوظ رکھا، میں نہیں چاہتا کہ میں اپنی زبان کو اس میں ملوث کروں۔
عن خالد بن یزید ابن بشر عن أبیہ قال وَقَدْ سُئِلَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ عَنْ قِتَالِ أَہْلِ صِفِّینَ؛ فَقَالَ:تِلْکَ دِمَاء ٌ کَفَّ اللَّہِ عَنْہَا یَدَیَّ؛ فَلَا أحب أن یطلخ بہا لسانی۔
ترجمہ :حضرت سیدناخالد بن یزیدابن بشراپنے والد ماجد سے روایت کرتے ہیں کہ اہل صفین کے بارے میں حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا تو آپ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے ان کے خون سے میرے ہاتھوں کو محفوظ رکھا، میں نہیں چاہتا کہ میں اپنی زبان کو اس میں ملوث کروں۔
(الآثار الواردۃ عن عمر بن عبد العزیز فی العقیدۃ:حیاۃ بن محمد بن جبریل(۱:۲۱۲)
دسویں صورت
سُؤَالُ التَّعَنُّتِ وَالْإِفْحَامِ وَطَلَبِ الْغَلَبَۃِ فِی الْخِصَامِ، وَفِی الْقُرْآنِ فِی ذَمِّ نَحْوِ ہَذَا: (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُعْجِبُکَ قَوْلُہُ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَیُشْہِدُ اللَّہَ عَلَی مَا فِی قَلْبِہِ وَہُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ) (الْبَقَرَۃ:۲۰۴)وَقَالَ: (بَلْ ہُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ) (الزُّخْرُفِ: ۵۸) .
ترجمہ :کٹ بحثی، کٹ حجتی اور دوسرے فریق کو لاجواب اور خاموش کرنے کے لئے سوالات کرنا۔ جیسا کہ مشرکین اور یہود مدینہ، حضور تاجدار ختم نبوتﷺ سے مطالبات اور سوالات کرتے تھے۔ ان کا ہرگز مطلب یہ نہ تھا کہ اگر انہیں معقول جواب مل جائے تو حق کو تسلیم کر لیں گے بلکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺ کو اس قسم کے سوالات میں الجھا کر کم از کم دوسروں کو حق سے دور رکھا جائے، قرآن کریم نے ایسے لوگوں کی مذمت کی ہے۔
(الآثار الواردۃ عن عمر بن عبد العزیز فی العقیدۃ:حیاۃ بن محمد بن جبریل(۱:۲۱۲)
گیارہویں صورت
بے ضرورت سوالات گھڑ گھڑ کر ان کی تحقیقات میں دماغ سوزی کرنا۔ جیسا کہ زلیخا کی شادی حضرت یوسف علیہ السلام سے ہوئی تھی یا نہیں؟ اصحاب کہف کے کتے کا رنگ کیسا تھا؟ حضرت سیدناموسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا نام کیا تھا؟فرعون کے باورچی کانام کیاتھا؟ اس قسم کے سوالات ممنوع ہیں کیونکہ اس میں اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کرنا ہے۔
بارہویں صورت
فرضی مسائل کھڑے کر کے ان کے متعلق غوروخوض کرنا بھی اسی قبیل سے ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے ایک ایسی چیز کے متعلق سوال کیا جس کا ابھی وقوع نہیں ہوا تھا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:ایسی چیز کے متعلق سوال نہ کرو جو ابھی واقع نہیں ہوئی، ہم نے اپنے والد گرامی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ ایسے شخص پر لعنت کرتے تھے جو ایسی اشیاء کے متعلق سوالات کرتا جو واقع نہ ہوئی ہوں۔
تنبیہ : یہ حدیث شریف ہم پہلے اسی بحث میں نقل کرآئے ہیں۔
ہم نے کتاب و سنت کی روشنی میں سوالات کی چند اقسام سے آپ کو آگاہ کیا ہے جو مستحسن نہیں ہیں۔ ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ آپ ایسے سوالات کریں جن کا تعلق آپ کی عملی زندگی سے ہے یا آپ عمل و کردار کے لحاظ سے کسی الجھن کا شکار ہیں۔ علماء کرام اللہ کے فضل و کرم سے آپ کی راہنمائی کرنے میں بخل سے کام نہیں لیں گے۔