بطخ کھانا حلال ہے یا حرام ؟ از مفتی ابو اسید عبید رضا مدنی

بطخ (Duck) کھانا حلال ہے یا حرام ؟

سائل : عبداللہ میانوالی پنجاب پاکستان

بسمہ تعالیٰ

الجواب بعون الملک الوھّاب

پرندوں کے حلال یا حرام ہونے کے متعلق شریعت کا اصول یہ ہے کہ ہر وہ پرندہ جس کے پنجے ہوں اور وہ اُن پنجوں سے شکار بھی کرتا ہو تو وہ پرندہ حرام ہوگا اور جس پرندے کے پنجے ہی نہ ہوں یا پنجے تو ہوں لیکن وہ اُن سے شکار نہ کرتا ہو تو وہ پرندہ حلال ہوگا۔

اس اصول کی روشنی میں دیکھا جائے تو بطخ کےپنجے ہی نہیں ہیں، لہٰذا بطخ بلاکراہت حلال پرندہ ہے اور بطخ کے حلال ہونے پر صحابہ کرام اور تابعینِ عظام رضی اللہ عنھم کا اجماع بھی ہے۔

چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :

"وَ عَلَى الَّذِیْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِیْ ظُفُرٍۚ-"

ترجمہ : اور ہم نے یہودیوں پر ہر ناخن والا جانور حرام کر دیا۔

(پارہ 8، سورۃ الانعام : 146)

ہر ناخن والا جانور کے ناخن سے مراد یہاں انگلی ہے، خواہ انگلیاں بیچ سے پھٹی ہوں جیسے کتا اور درندے یا نہ پھٹی ہوں بلکہ کھر کی صورت میں ہوں جیسے اونٹ، شترمرغ اور بطخ وغیرہ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ یہاں بطورِ خاص شتر مرغ، بطخ اور اُونٹ مراد ہیں۔

شیخ احمد ابوسعید ملا جیون جونپوری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :

’’وحلیۃ الابل و البط و النعامۃ باجماع الصحابۃ و التابعین‘‘

یعنی اور اونٹ، بطخ اور شترمرغ کا حلال ہونا صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) اور تابعین عظام (رحمۃ اللہ علیھم) کے اجماع سے ثابت ہے۔

(التفسیرات الاحمدیہ فی بیان الایات الشرعیۃ، صفحہ 405، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

صدرالافاضل سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ اس آیتِ مبارکہ کی، تفسیر کے تحت تحریر فرماتے ہیں :

”یہود اپنی سرکشی کے باعث ان چیزوں سے محروم کئے گئے لہٰذا یہ چیزیں ان پر حرام رہیں اور ہماری شریعت میں گائے بکری کی چربی اور اُونٹ اور بَط (بطخ) اور شُتُر مرغ حلال ہیں، اسی پر صحابہ اور تابعین کا اِجماع ہے ۔”

(تفسیر خزائن العرفان، صفحہ 280، مکتبۃ المدینہ کراچی)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں :

’’نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عن کل ذی ناب من السباع و عن کل ذی مخلب من الطیر‘‘

یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر نوکیلے دانت والے درندے اور پنجے والے پرندے سے منع فرمایا ہے (یعنی ان کو کھانے سے منع فرمایا ہے)۔

(صحیح مسلم، جلد 2، صفحہ 147، مطبوعہ کراچی)

جوہرہ نیرہ میں ہے :

’’(لایجوز اکل کل ذی ناب من السباع و لا ذی مخلب من الطیر) المراد من ذی الناب ان یکون لہ ناب یصطاد بہ و کذا من ذی المخلب‘‘

نوکیلے دانت والے درندوں اور پنجوں والے پرندوں کا کھانا جائز نہیں ہے اور نوکیلے دانتوں سے مراد یہ کہ اُس کے ایسے نوکیلے دانت ہوں، جن سے وہ شکار کرتا ہو اور اسی طرح پنجوں سے مراد یہ ہے کہ اُن سے وہ پرندہ شکار بھی کرتا ہو۔

(الجوھرۃ النیرۃ، جلد 2، صفحہ 265، قدیمی کتب خانہ،کراچی)

ملک العلماء علاءالدین ابوبکر بن مسعود کاشانی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :

"و ما لا مخلب لہ من الطیر فالمستأنس منہ کالدجاج و البط…و نحوھا حلال بالإجماع”

یعنی اور پرندوں میں سے جو پنجے والے نہ ہوں، پس ان میں سے مانوس جیسے مرغی اور بطخ۔۔۔وغیرہ بالاجماع حلال ہیں۔

(بدائع الصنائع، جلد 5، صفحہ 39)

مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی تحریر فرماتے ہیں :

"قوانینِ شرعیہ کے مطابق جو پرندہ اپنے پنجوں سے شکار کرتا ہو،حرام ہے اور جو پرندہ پنجوں سے شکار نہ کرتا ہو، حلال ہے۔ بطخ پنجوں سے شکار کرنے والے پرندوں میں سے نہیں ہے لہٰذا بلاشبہ حلال ہے،اسے ذبحِ شرعی کے بعد کھایا جاسکتا ہے۔”

(تاریخ اجراء : ماہنامہ فیضان مدینہ محرم الحرام1441ھ)

واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ والہ وسلم

کتبہ : مفتی ابواسیدعبیدرضامدنی

Leave a Reply