بینک سے سودی قرض لینا کیسا ہے ؟ از مفتی نظام الدین رضوی

بینک سے سودی قرض لینا کیسا ہے ؟ Bank se loan lena kaisa hai

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام بڑی بڑی تجارتوں اور بس ، ٹرک وغیرہ کی خریداری کے لیے بینک سودی قرض لینا پڑتا ہے ورنہ اس سے زیادہ سرمایہ سیل ٹیکس اور انکم ٹیکس میں ضائع ہوجائے گا ۔ تو کیا ایسی مجبوری کی صورت میں بینک سے سودی قرض لینا جائز ہے؟

الجوابــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

سیل ٹیکس اور انکم ٹیکس کے ضرر اور اس کی تباہ کاری سے بچنے کی ضرورت اور مفسدہ مظنونہ( معاشی زبوں حالی ، اور تعلیمی و ثقافتی وسیاسی انحطاط) کے ازالہ کے لیے بینک سودی قرض لینا جائز ہے کہ یہ فی الواقع اپنے مال کو ضیاع سے بچانا ہے ، نیز ضرر اشد سے تحفظ کے لیے ضرر اخف کا ارتکاب ہے ۔ البتہ اس کے لیے درج ذیل شرائط کی پابندی لازم ہے ۔

(1) بنام انٹریسٹ، جتنی رقم زائد دینی پڑے وہ سیل ٹیکس اور انکم ٹیکس کی عائد ہونے والی رقم سے کم ہو ۔

(2) ممکنہ حد تک جلد از جلد قرض کی جملہ رقم ادا کردی جائے، کوئی قرض ناغہ نہ ہو جس کی بنا پر مزید اضافی رقم دینے کی نوبت آئے ۔

(3) اعتقاد یہی رکھے کہ قرض پر یہ زائد رقم بوجہ مجبوری دے رہا ہے اور اسے دل سے برا ہی جانے یہ نہیں کہ ” اجازت بوجہ مجبور” کو اصل مباح سمجھ کر بغیر کسی ناگواری کے بطیب خاطر ایسے قرض کا لین دین جاری کرے ۔

(4) قرض اتنا ہی لے جتنے سے اس کی حاجت پوری ہوسکے کہ بوجہ حاجت جو اجازت ہوتی ہے وہ بقدر حاجت ہوتی ہے ۔ ان شرائط کی رعایت کے ساتھ بس، ٹرک وغیرہ کی خریداری اور فروغ معاش کے لیے بینک سے قرض لینے کی اجازت ہے ۔ ورنہ نہیں ۔

والله تعالى اعلم بالصواب ۔

کتبــــــــــــہ : مفتی نظام الدین رضوی جامعہ اشرفیہ مبارک پور 

Leave a Reply