بینک سے زائد رقم دینے کی شرط پر قرض لینا کیسا ہے ؟

بینک سے زائد رقم دینے کی شرط پر قرض لینا کیسا ہے ؟

السلام علیکم

سوال عرض ھے کی بجنس کرنا چاھتا ھوں کیا بینک سے لون لے کر بجنس کرنا جایز ھے ؟

محمد الطاف عطاری بلگام کرناٹک

الجواب بعون الھادی الی الحق والصواب:

بلا ضرورت شرعیہ بینک سے سودی قرض لینا ناجائز ہے، چنانچہ فتاوی رضویہ میں ہے:

بغیر سخت مجبوری کے جسے شرع بھی مجبوری کہے سودی قرض لینا حرام ہے۔ (ج 7ص 86)

دوسری جگہ امام اہل سنت فرماتے ہیں:

سود جس طرح لینا حرام ہے دینا بھی حرام ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آکل الربوا و موکلہ و کاتبہ و شاھدیہ ( قدیم ج7 ص 83)

بہار شریعت میں ہے: شریعت مطہرہ نے جس طرح سود لینا حرام فرمایا سود دینا بھی حرام کیا ہے، حدیثوں میں دونوں پر لعنت فرمائی ہے، اور فرمایا کہ دونوں برابر ہیں، آج کل سود کی اتنی کثرت ہے کہ قرض حسن جو بغیر سودی ہوتا ہے بہت کم پایا جاتا ہے، دولت والے کسی کو بغیر نفع روپیہ دینا نہیں چاہتے، اور اہل حاجت اپنی حاجت کے سامنے اس کا لحاظ بھی نہیں کرتے کہ سودی روپیہ لینے میں آخرت کا کتنا عظیم وبال ہے،اس سے بچنے کی کوشش کی جائے(بہار شریعت حصہ 11 ص 776)

فتاویٰ بحرالعلوم میں ہے:

مجبوری کی صورت میں سودی قرضہ لینے کی اجازت ہے، مگر عام طور سے لوگ جس کو مجبوری سمجھتے ہیں، وہ مجبوری نہیں ہے ،مجبوری یہ ہے کہ آدمی فاقہ سے مر رہا ہو تو جان بچانے کے لیے ایسا قرضہ لے سکتے ہیں، نہ یہ کہ تجارت اور مال داری میں کہ یہ شرعی ضرورت نہیں، (ج2ص393)

فتاوی فقیہ ملت میں ہے: "اور بینک سے قرض لے کر اسے زائد رقم دینا ممنوع ہے، اگرچہ وہ بینک خالص کافروں کا ہو” (ج2ص 393)

اسی میں ہے:

” بینک اگر مسلمان کا ہے یامسلم اور غیر مسلم کا مشترکہ ہے تو اس بینک سے سود دینے کی شرط پر قرض لینا حرام ہے، اور اگر بینک خالص کافروں کا ہے تو اگرچہ ایسے بینک سے زائد رقم دینے کی شرط پر دوکان وغیرہ کے لئے روپیہ لانا شرعاً سود نہیں کہ یہاں کے کفار حربی ہیں، اور مسلمان و حربی کے درمیان سود نہیں، مگر ایسے بینک سے بھی بلا ضرورت شدیدہ قرض لانا اور انہیں نفع دینا منع ہے”(ج 2ص 391)

ہاں کفار کو تھوڑا نفع دینے میں زیادہ نفع ہوتو جائز ہے، چنانچہ حضور فقیہ ملت ردالمحتار کے حوالے سے فرماتے ہیں :

” ہاں اگر تھوڑا نفع دینے میں اپنا نفع زیادہ ہوتو جائز ہے،جیسا کہ ردالمحتار ج چہارم ص 188 میں ہے: الظاھر ان الإباحة یفید نیل المسلم الزیادۃ و قد الزم الاصحاب فی الدرس ان مرادھم من حل الربا والقمار مااذا حصلت الزیادۃ للمسلم ۔ (فتاوی فیض الرسول ج 2 ص 388)

حاصل یہ ہے کہ بلا ضرورت شرعیہ بینک سے لون لے کر تجارت کرنا ناجائز ہے،ہاں بینک کو تھوڑا نفع دینے میں اپنا نفع زیادہ ہو تو پھر بینک سے قرض لینے کی گنجائش ہمارے علماء نے دی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

مفتی کمال احمد علیمی نظامی

کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ

جامعہ علیمیہ جمدا شاہی

26 ربیع النور 1443/ 2نومبر 2021

الجواب صحیح محمد نظام الدین قادری مصباحی

صدر شعبہ افتا

جامعہ علیمیہ جمدا شاہی

1 thought on “بینک سے زائد رقم دینے کی شرط پر قرض لینا کیسا ہے ؟”

  1. اگر کسی کی دکان کرائے سے ہوں اور اس کے پاس پیسا نہ ہو کہ اس کے علاج میں چلا گیا، تو کیا کرایہ بھر نے کے لیے بنک سے لون لے سکتا ہے؟ ورنہ اس کو دکان خالی کرنی پڑھےگی۔

    جواب دیں

Leave a Reply