بینک سے ملنے والی زائد رقم مسجد میں لگانا کیسا ہے؟ از مفتی نظام الدین رضوی

بینک سے ملنے والی زائد رقم مسجد میں لگانا کیسا ہے؟

سوال : میری بستی میں مسجد تعمیر کرنے کے لئے چندہ ہوا، روپیہ کو لوگوں کے مشورہ سے بینک میں رکھ دیا گیا تقریبا دو سال رقم بینک میں

رکھی رہی تعمیری کام شروع ہوا تو رقم نکالی گئی تو اس میں تقریبا گیارہ ہزار سے زیادہ روپیہ بیاج کا ملا ہے. کیا وہ زیادہ رقم جو بینک سے بیاج

کی ملی ہے اس کو مسجد میں لگایا جا سکتا ہے یا نہیں اگر لگایا جاسکتا ہے تو قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں؟

الجوابـــــــــــــــــــــــــ

بیا ج و سود تو حرام قطعی ہے، نہ اسے لینا جائز ہے نا اسے اپنے یا مسجد کے کام میں لانا جائز. ارشاد باری تعالیٰ ہے "وحرم الربوا ” لیکن حکومت

ہند کے بینکوں میں روپے جمع کرنے پر جو زیادہ رقم ملتی ہے وہ بیاج یا سود نہیں بلکہ یہ ایک مباح مال ہے. جو مالک کی رضا سے مل رہا ہے،

حکومت ہند ایک سیکولر حکومت ہے اس کا کوئی مذہب نہیں یہ کسی مذہب کی پابند نہیں، اور اس کے اپنے دستور کے مطابق قرض لے کر زیادہ

دینا مناسب عمل ہے اس لیے اس کے مال میں سود کا تحقق نہ ہوگا کہ سود کی حرمت تو اسلام کا قانون ہے اور وہ اسلام کی پابند نہیں، لہذا

مسجد کے روپے بینک میں جمع کرنے پر گیارہ ہزار سے زائد روپے جو فاضل ملے وہ مسجد کے ملک ہیں اور ان کو مسجد میں لگانا جائز ہے تحقیق و

تفصیل کے لئے میری کتاب ” اسلام اور جدید بینکاری” کا مطالعہ کریں ۔

و اللہ تعالی اعلم

کتبہ : مفتی نظام الدین رضوی جامعہ اشرفیہ مبارکپور

Leave a Reply