بینک سے لون لیکر گھر بنانا کیسا ہے?

بینک سے لون لیکر گھر بنانا کیسا ہے

السلام علیکم و رحمة اللّٰہ و برکاتہ
عند الضرورة بینک سے لون لیکر گھر بنانا کیسا ہے
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مندرجہ ذیل مسئلہ میں کہ زید ایک سنی صحیح العقیدہ عالم دین ہے ،ساتھ اس کے ایک گورمنٹی {Govarment}مدرسہ کا ملازم بھی ہے .
زید اور ان کے بھائی ایک مکان میں رہتے تھے ،جب زید اور ان کے بھائیوں کی زمین کا بٹوارا ہوا تو زید جس حجرے میں رہتا تھا وہ جگہ اس کے بھائیوں کے حصے میں آئی ،زید کو وہ کمرہ خالی کرنے کو کہا گیا تو زید نے کہا کہ اس وقت میرے پاس اتنا روپیہ نہیں ہے کہ میں ایک نیا گھر کی تعمیر کرسکوں ،لہذا مجھے کچھ دنوں کی مہلت دی جائے تو انہیں ]زید[دوسال کی مہلت دی گئی مگر پانچ سال گزر گئے نیا گھر تیار نہ کر سکا،اس بات کو لیکر دیورانی و جیٹھانی میں اکثر جھگڑا ہوتا رہا ،پھر بھائی بھائی میں بھی جھگڑا شروع ہوگیاقریب تھاکہ آپس میں خون ریزی اور فتنہ و فساد شروع ہوجاتا ،ٹاٹ و پھوس کا گھربنانا بھی مشکل تھا کیوں کہ فی زماننا ٹاٹ و پھوس یہاں ملتا نہیں ،دوسری بات یہ ہے کہ ٹاٹ و پھوس کے گھر میں جان و مال اور عزت و آبرو کا خطرہ ،مزید یہ کہ زید کے بیٹا و بیٹی بھی بڑے ہو رہے ہیں ان کے لئے الگ الگ کمرے کی ضرورت ،تو زید نے گھر کی تعمیر کے لئے اپنے دوست و احباب سے کچھ رقم بطور قرض مانگے مگر کسی نے مدد نہ کی ،تو زید فتنہ و فساد کو ختم کرنے اور خون ریزی سے بچنے کے لئے مجبورا اپنی تنخواہ سے کچھ رقم بینک سے بطور لون لیا جو ہر مہینہ ان کی تنخواہ سے کٹتا رہتا ہے .
اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ زید کا ایسا کرنا ازروئے شرع کیسا ہے ؟زید کی اقتدا کا حکم کیا ہے ؟کچھ لوگوں کا کہنا ہیکہ زید کی اقتدا درست نہیں ان لوگوں کا ایسا کہنا ازروئے شرع کیسا ہے ؟فقہ شریف کی روشنی میں جواب عنایت فرماکر عنداللہ ماجور و عندالناس مشکور ہوں .
المستفتی
عبدالبرھان برکاتی
بالاسور،اڈیشا
وعلیکم السلام و رحمة اللّٰہ و برکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب اللہم ہدایة الحق والصواب :

صورت مسئولہ میں بینک اگر مسلمان کا ہے یا مسلم اور غیر مسلم کا مشترکہ ہے تو ایسے بینک سے سود دینے کی شرط پر قرض لینا حرام ہے اور سود دینے والا بھی سود لینے والے کی مثل گنہگار ہے کہ حضور ۖ نے دونوں پر لعنت فرمائی ہے ، جیساکہ حدیث شریف میں ہے (لعن رسول اللہ ۖ اکل الربویٰ او موکلہ او کاتبہ وشاھدیہ و قال ھم سواء ) یعنی سرکار اقدس ۖ نے سود لینے والوں سود دینے والوں سودی دستاویز لکھنے والوں اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا سب گناہ میں برابر کے شریک ہیں ]مسلم شریف[اور اگر بینک یہاں کے خالص کافروں کا ہے تو اگرچہ ایسے بینک سے زائد رقم دینے کی شرط پر مکان وغیرہ کی تعمیر کے لئے لون لینا شرعا سود نہیں کہ یہاں کہ کفار حربی ہیں ،جیسا کہ رئیس الفقہاء حضرت ملا جیون علیہ الرحمہ فرماتے ہیں (ان ھم الاحربی وما یعقلھا الاالعالمون )]تفسیرات احمدیہ ص ٣٠٠[اور حدیث شریف میں ہے (لا ربا بین المسلم والحربی )کہ مسلمان اور کافر حربی کے درمیان سود نہیں ہوتا .رد المحتار علی الدر المختار میں ہے (الظاہر ان الاباحة یفید نیل المسلم الزیادة و قد الزم الاصحاب فی الدرس ان مرادھم من حل الرباوالقمار ماذا حصلت الزیادة للمسلم)(ردالمحتار علی الدرالمختار ٤/١٨٨)لہذا مال موذی نصیب غازی سمجھ کر یہاں کے بینکوں سے نفع لینا جائز ہے لیکن دینا منع ہے کہ اس میں کفار کا فائدہ ہے اور کافروں کو فائدہ پہنچانا ممنوع ہے ،ہاں اگر کسی کے پاس ضروری رہائشی مکان نہیں ہے اور اس کے پاس دیگر اسباب بھی موجود نہیں کہ جن سے ضروری رہائشی مکان بنا سکے اور کہیں سے بینک سے لون کے بغیر قرض حسن بھی نہ مل رہا ہوتو اس صورت میں اسے مجبورا بینک سے لون لینے کی اجازت ہوگی ،جیساکہ الاشباہ والنظائر میں ہے کہ (الضرورات تبیح المحظورات )]الاشباہ والنظائر صفحہ ٣٠٧[ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں تاج الشریعہ بدرالطریقہ مرشدی الکامل حضرت علامہ مفتی اختررضا خان ازہری علیہ الرحمة والرضوان تحریر فرماتے ہیں :یہاں کے بینک جو قرض زیادتی کی شرط پر دیتے ہیں مسلمانوں کو لینا جائز ہے کہ اس میں مسلم کو منفعت کثیرہ ہے اگرچہ منفعت نہ ہو تی تو اس کی اجازت بے ضرورت نہ ہوتی کہ اس صورت میں حربی کافر کو محض نفع پہنچانا ہوتا اور یہ شرعا نا جائز ہے اور حربی کافر سے زیادتی کا لین دین سود نہیں کہ سود مسلم و حربی کے درمیان نہیں ہوتا ہے بلکہ مسلم و مسلم یا مسلم و ذمی کے درمیان ہوتا ہے ،لہذا مسلم سے جو کچھ کفار حربی سے بے غدر و بد عہدی محض ان کی رضا سے ملے حلال ہے ،اگرچہ عقود فاسدہ سے حاصل ہو ۔بحر میں ہے (لا ربا بین المسلم والحربی فی دارالحرب و فی البنایة و کذا ازا باع خمرا او خنزیرا او میتة او قامرھم او اخذ المال کل ذالک یحل لہ )اور بے ضرورت انہیں زیادہ دینا گناہ ہے مگر سود نہیں (فتاویٰ تاج الشریعہ ٨/٧٦)لہذا مذکورہ بالا جزئیات سے یہ ثابت ہواکہ ضرورتاجبکہ مباح مال نہ ملتا ہوتو بینک سے لون لے کر گھر کی تعمیر کرنا جائز ہے اور ایسی صور ت میں ایسے امام کی امامت بھی بلاکراہت درست ہے .
اور لوگوں کا یہ کہنا کہ زید کی اقتدا درست نہیں غلط ہے کہ بغیر علم کے غلط مسئلہ بیان کرنا سخت کبیرہ گناہ ہے ،جیساکہ اعلیٰ حضرت عظیم البرکت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمة والرضوان تحریر فرماتے ہیں :جھوٹا مسئلہ بیان کرنا سخت شدید کبیرہ ]گناہ[ ہے ،اگر قصدا ہے تو شریعت پر افتراء ]یعنی جھوٹ باندھنا[ہے اور شریعت پر افتراء اللہ عزو جل پر افتراء ہے ،اور اللہ عزوجل فرماتا ہے (ان الذین یفترون علی اللہ الکذب لا یفلحون )وہ جو اللہ عزوجل پر جھوٹ باندھتے ہیں ان کا بھلا نہ ہوگا ]کنزالایمان پارہ ١١ سورہ یونس آیت ٤٩[ ،اور اگر بے علمی سے ہے تو جاہل پر سخت حرام ہے کہ فتویٰ دے . حدیث میں ہے نبی ۖ فرماتے ہیں (من افتی بغیر علم لعنتہ ملٰئکة السماء والارض ) جو بغیر علم کے فتویٰ دے اس پر آسمان و زمین کے فرشتے لعنت کرتے ہیں ،ہاں اگر عالم سے اتفاقا سہو واقع ہوا اور اس نے اپنی طرف سے بے احتیاطی نہ کی اور غلط جواب صادر ہوا تو مواخذہ نہیں ،مگر فرض ہے کہ مطلع ہوتے ہی فورا اپنی خطا ظاہر کرے اس پر اصرار کرے تو پہلی شق یعنی افترا میں آجائے گا]فتاویٰ رضویہ مترجم ٢٣/٧١١۔٧١٢[واللّٰہ تعالیٰ ورسولہ الاعلیٰ اعلم بالصواب
کتبہ: العبدالمذنب الفقیر عبدالعزیز خوشتر رضوی العلیمی

خادم الافتا: رضوی دارالافتائ
بانی و ناظم اعلیٰ :کلیة رضویة للبنات
جھاڑیسرپور،جالیسر ،بالاسور ،اڈیشا
٠١شعبان المعظم ١٤٤٤ہ مطابق ٢٢فروری ٢٠٢٣ء بروز بدھ

Leave a Reply