بینک میں پیسہ لگانے پر اجرت لینا کیسا ہے ؟
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں:
(1) چند مسلم نوجوانوں نے لوگوں کی رقومات منتقل کرنے کے لئے ایک تنظیم بنائی ہے ، گجرات، مہاراشٹر اور جالون میں اس کی متعدد برانچیں ہیں ، مثلا مہاراشٹر سے جالون کسی کو اپنی رقم بھیجنی ہے تو وہ اپنے قریبی برانچ میں جاکر ، نام و پیسہ کے ساتھ جمع کرتا ہے اور جالون کی برانچ میں فون کردیا جاتا ہے ۔ وہ برانچ فوری طور سے یہ رقم ( جس کے پاس پہنچتی ہے) ادا کردیتی ہے ۔ اس طرح بہت سے دشواریوں سے بچ جاتے ہیں اور آسانی کے ساتھ انھیں رقومات حاصل ہو جاتی ہیں ۔ تنظیم اس کام کے لیے بھیجنے والوں سے پانچ فیصد رقم وصول کرتی ہے ۔
دریافت طلب امر یہ ہے کہ تنظیم کا یہ کام از روئے شرع درست ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں تو پانچ سال تک ایک تنظیم جو پانچ فی صد رقم وصول کرتی ہے اور کرتی رہی اس کا کیا کیا جائے ؟ نیز اگر جواز کی کوئی دوسری صورت ہے تو تحریر فرمائی جائے؟
(2) زید کا گورنمنٹ بینک میں کھاتا ہے ۔ زید کو بینک سے جو زائد رقم سود کی شکل میں ملتی ہے ، وہ رقم زید دینی مدرسوں اور غریبوں کو دے سکتا ہے یا نہیں؟ براہ کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں؟
الجوابـــــــــــــــــــــــــ
(1) شرعی نقطہ نظر سے روپیہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا یہ طریقہ جائز ہے ۔
اس کی نظیر منی آرڈر ہے ۔ البتہ اجرت کا فی صد کم ہونا چاہیے ۔ بہر حال طریقہ قانوناً جرم ہو یا منع ہو تو اس سے بچیں ۔ اس تقدیر پر یہی حکم شرع ہے ۔
(2) حکومت ہند کے بینکوں میں روپیہ جمع کرنے پر جو زائد رقم ملتی ہے وہ سود نہیں بلکہ ایک پاک اور حلال مال ہے ۔ اسے سود سمجھنا غلط ہے ۔ اس لئے وہ زائد رقم ضرور لے لیں اور اس سے دینی مدارس اور محتاج مسلمانوں کی مدد کریں ۔ یہ افضل ہے ۔ اور چاہیں تو اپنے نجی امور میں بھی صرف کر سکتے ہیں ۔ یہ جائز ہے ۔ اس مسئلے کی پوری تحقیق کے لئے "جدید بینکاری اور اسلام” اس کتاب کو مطلع کریں ۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
کتبــــــہ : مفتی نظام الدین رضوی جامعہ اشرفیہ مبارک پور