بالوں کو کلر کرنا اور مہندی لگانا کیسا ہے ؟
سوال : آج کل جو بالوں کو کلر (Colour) کروانے کا رواج عام ہوا ہے، کیا اس طرح بالوں کو کلر (colour) کروانا شریعتِ مُطَھَّرَہ میں جائز ہے ؟
سائلہ : اقراء شہر لاہور
بسمہ تعالیٰ
الجواب بعون الملک الوھّاب
اللھم ھدایۃ الحق و الصواب
شریعتِ مطہرہ میں مرد و عورت کے لئے بالوں میں کالا کلر (کالا رنگ) لگانا جہاد کے علاوہ صحیح مذہب کے مطابق مطلقاً حرام ہے خواہ بالوں کو کالا کرنے کے لئے کالا کولا لگایا جائے یا کالی مہندی یا کالا پتھر یا کوئی اور چیز لگائی جائے، جبکہ مجاہدین کے لئے جہاد کی حالت میں بالوں کا کالا کلر لگانا جائز ہے تاکہ دشمنوں پر رعب طاری ہو اور وہ خوف زدہ ہوں ۔
البتہ کالے کلر کے علاوہ سرخ، زرد یا براؤن وغیرہ میں سے کوئی کلر بالوں میں لگانا مرد و عورت کے لئے جائز ہے ۔
اور مرد و عورت دونوں کے لئے اپنے سفید بالوں کو مہندی سے رنگنا مستحب ہے . اور مہندی میں کتم (یعنی ایک گھاس جو زیتون کے پتوں کےمشابہ ہوتی ہے، جس کا کلر گہرا سرخ مائل بسیاہی ہوتا ہے، اس) کی پتیاں ملا کر گہرے سرخ کلر سے رنگنا، تنہا مہندی کے ساتھ رنگنے سے بہتر ہے اور زرد کلر اس سے بھی بہتر ہے ۔
چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
"غیروا الشیب و لاتقربوا السواد”
یعنی بڑھاپے کو بدل دو اور کالے کلر کے قریب مت جاؤ۔
(مسند احمد بن حنبل، جلد 3، صفحہ 247، المکتب الاسلامی بیروت)
حضرت سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
"یکون قوم فی اٰخر الزمان یخضبون بھذا السواد کحواصل الحمام لا یجدون رائحۃ الجنۃ“
یعنی آخری زمانے میں کچھ لوگ کالا خضاب لگائیں گے جیسے کبوتروں کے پوٹے، وہ جنت کی خوشبو نہ سونگھیں گے۔
(مسند احمد بن حنبل، جلد 3، صفحہ 247، المکتب الاسلامی بیروت، سنن أبی داؤد، کتاب الترجل، باب ما جاء فی خضاب السواد، جلد 3، دارالکتب العلمیہ بیروت)
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
”مَنْ خضب بالسّواد سَوَّدَ اللهُ وجهَه يوم القيامة”
یعنی جو کالا خضسب لگائے گا، اللہ پاک قیامت کے دن اس کا چہرہ کالا کرے گا۔
(مجمع الزوائد، کتاب اللباس، باب ماجاء گی الشیب و الخضاب۔۔ الخ، جلد 5، صفحہ 163، دارالکتاب العربی بیروت، کنزالعمال، بحوالہ طبرانی کبیر، رقم الحدیث : 17333، جلد 6، صفحہ 671، مؤسسۃ الرسالۃ بیروت، مشكاة المصابيح، كتاب اللباس، الفصل الثانى)
نبی کریم صلی ﷲ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :
"اول من خضب بالحناء و الکتم ابراھیم و اول من اختضب بالسواد فرعون”
یعنی سب میں پہلے حنا و کتم سے خضاب کرنے والے حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں اور سب میں پہلے سیاہ خضاب کرنے والا فرعون ہے۔
(الفردوس بما ثور الخطاب، جلد 1، صفحہ 29، 30، رقم الحدیث : 47، دارالکتب العلمیہ بیروت)
علامہ عبدالرؤف مناوی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت تحریر فرماتے ہیں :
"فلذٰلك کان الاول مندوبا و الثانی محرما الا للجھاد”
یعنی اسی لئے پہلا خضاب مستحب ہے اور دوسرا غیر جہاد میں حرام ہے۔
(التیسیر شرح الجامع الصغیر، تحت حدیث اول من خضب بالحناد… الخ، جلد 1، صفحہ 392، مکتب الامام الشافعی الریاض)
حضور سید عالم صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
"ان ﷲ تعالٰی لاینظر الی من یخضب بالسواد یوم القیمۃ”
یعنی بےشک ﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص کی طرف نظرِ رحمت نہ فرمائے گا جو کالا خضاب لگائے گا۔
(کنز العمال بحوالہ ابن سعد رضی ﷲ تعالٰی عنہ، جلد 6، صفحہ 671، رقم الحدیث : 17331، موسسۃ الرسالہ بیروت)
رسول الله صلى الله عليه وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے والدِ گرامی ابو قحافہ رضی اللہ عنہ کی خالص سفید داڑھی دیکھ کر فرمایا :
"غيروا هذا بشيء واجتنبوا السواد”
یعنی اس سفیدی کو کسی چیز سے بدل دو اور کالے کلر (رنگ) سے بچو۔
(صحيح مسلم، کتاب اللباس و الزینۃ، باب استحباب خضاب الشیب بصفرۃ۔۔۔ الخ، جلد 2، صفحہ 199، قدیمی کتب خانہ کراچی)
سننِ ابی داؤد میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے ہے :
"مر علی النبی صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم رجل قد خضب بالحناء فقال ما احسن ھذا، قال : فمر اٰخر قد خضب بالحناء و الکتم، فقال : ھذا احسن من ھذا، ثم مر اٰخر قد خضب بالصفر، فقال : ھذا احسن من ھذا کلہ”
یعنی نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ایک ایسا شخص گزرا جس نے مہندی کا خضاب کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ کیا خوب ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ پھر ایک اور شخص گزرا جس نے مہندی اور کتم ملا کر خضاب کیا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ اس سے بھی بہتر ہے، پھر ایک اور شخص گزرا جس نے زرد خضاب کیا ہوا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ ان
سب سے بہتر ہے۔
(سنن ابی داؤد، کتاب الترجل، باب فی خضاب الصفرۃ، جلد 3، صفحہ 88، دارالکتب العلمیہ بیروت)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے :
"اتفق المشايخ رحمهم الله تعالى أن الخضاب في حق الرجال بالحمرة سنة وأنه من سيماء المسلمين وعلاماتهم وأما الخضاب بالسواد فمن فعل ذلك من الغزاة ليكون أهيب في عين العدو فهو محمود منه، اتفق عليه المشايخ رحمهم الله تعالى ومن فعل ذلك ليزين نفسه للنساء وليحبب نفسه إليهن فذلك مكروه وعليه عامة المشايخ”
مشائخ رحمۃ اللہ علیھم نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ مردوں کے حق میں سرخ کلر کے ساتھ خضاب سنت ہے، اور بےشک یہ مسلمانوں کی علامات میں سے ہے اور بہرحال کالے کلر کے ساتھ خضاب کرنا تو جس نے جہاد کی وجہ سے ایسا کیا تاکہ دشمن کی نگاہ میں بارعب و خوفناک ہو جائے تو یہ محمود (اچھا عمل) ہے، اسی پر مشائخ رحمۃ اللہ علیھم نے اتفاق کیا ہے اور جس نے ایسا اس لئے کیا کہ وہ عورتوں کے لئے اپنے آپ کو مزین کرے اور ان کے نزدیک اپنے آپ کو محبوب (پسندیدہ) بنائے تو یہ مکروہ (تحریمی) ہے اور اسی (مؤقف) پر عام مشائخ رحمۃ اللہ علیھم (قائم) ہیں۔
(فتاوى عالمگیری، جلد 5، صفحہ 359، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
عمدۃ المحققین علامہ محمد امین بن عمر بن عبدالعزیز عابدین شامی دمشقی حنفی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"و مذھبنا ان الصبغ بالحناء و الوسمۃ حسن کما فی الخانیۃ۔ قال النووی : و مذھبنا استحباب خضاب الشیب للرجل و المراۃ بصفرۃ او حمرۃ، وتحریم خضابہ بالسواد علی الاصح لقولہ علیہ الصلوٰۃ و السلام : "غیروا ھذا الشیب و اجتنبوا السواد” اھ۔ قال الحموی : و ھذا فی حق غیر الغزاۃ، و لایحرم فی حقھم للارھاب، ولعلہ محمل من فعل ذلک من الصحابۃ”
یعنی اور ہمارا مذہب یہ ہے کہ مہندی اور وسمہ کے ساتھ رنگنا اچھا ہے جیسا کہ خانیہ میں ہے، امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : اور ہمارا مذہب یہ ہے کہ مرد اور عورت کے لیے بڑھاپے کو زردی یا سرخی کے ساتھ رنگنا مستحب ہے، اور بڑھاپے کو سیاہی کے ساتھ رنگنا حرام ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی وجہ سے کہ :
"تم اس بڑھاپے کو بدلو اور سیاہی سے بچو.”
امام حموی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اور یہ حکم مجاہدین کے سوا دوسروں کے لئے ہے، لہٰذا ان کے حق میں دشمن کو ڈرانے اور مرعوب کرنے کے لئے سیاہ خضاب کا استعمال حرام نہیں اور جو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے کالا خضاب لگایا، وہ شاید اسی پر محمول ہے۔
(ردالمحتار علی الدرالمختار، کتاب الخنثیٰ، مَسَائِلُ شَتَّی، جلد 10، صفحہ 523، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
ابوبکر بن علی حدادی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
”و أما خضب الشیب بالحناء، فلابأس بہ للرجال و النساء“
یعنی مردوں اور عورتوں کے لئے سفید بالوں کو مہندی سے رنگنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(الجوھرۃالنیرۃ، کتاب الحظر و الاباحۃ، جلد 2، صفحہ 617، مطبوعہ کراچی)
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
”تنہا مہندی مستحب ہے اور اس میں کتم کی پتیاں ملا کر کہ ایک گھاس مشابہ برگ زیتون ہے جس کا رنگ گہرا سرخ مائل بسیاہی ہوتا ہے اس سے بہتر اور زرد رنگ سب سے بہتر، اور سیاہ (رنگ) وسمے کا ہو، خواہ کسی چیز کا (ہو) مطلقاً (بغیر کسی قید کے) حرام ہے، مگر مجاہدین کو۔”
(فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 487، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ والہ وسلم
کتبہ : مفتی ابواسیدعبیدرضامدنی