انسانی بـالوں کی خرید و فـروخت کرنا اور ان کو وِگْ کے طور پر استعمال کرنا کیسا ہے ؟
الجواب بعون الملک الوہاب:
انسانیت کے احترام کی وجہ سے زندہ یا مردہ انسان کے بالوں کی خرید و فروخت کرنا, ان کی وِگْ لگانا اور کسی بھی قسم کا نفع حاصل کرنا ناجائز و حرام ہے ۔ اسی طرح خنزیر کے نَجِسُ الْعَیْن ہونے کی وجہ سے اس کے بالوں کی وگ لگانا بھی ناجائز وحرام ہے ۔ اور کتے کے بالوں کے بارے میں شدید اختلاف ہے جس کی وجہ سے کتے کے بالوں کی وگ لگانے سے بچنا بہتر ہے, لہذا اگر انسان , خنزیر اور کتے کے علاوہ دیگر جانوروں کے بالوں یا نقلی بالوں کی وگ لگائی جائے تو بالکل جائز ہے ۔
1-علامہ ابن نجیم رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"وَ شَعْرِ الْإِنْسَانِ وَالِانْتِفَاعِ بِهِ لَمْ يَجُزْ بَيْعُهُ وَالِانْتِفَاعُ بِهِ لِأَنَّ الْآدَمِيَّ مُكَرَّمٌ غَيْرُ مُبْتَذَلٍ فَلَا يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ شَيْءٌ مِنْ أَجْزَائِهِ مُهَانًا مُبْتَذَلًا، وَقَدْ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « لَعَنَ اللَّهُ الْوَاصِلَةَ وَ الْمُسْتَوْصِلَةَ » وَإِنَّمَا يُرَخَّصُ فِيمَا يُتَّخَذُ مِنْ الْوَبَرِ فَيَزِيدُ فِي قُرُونِ النِّسَاءِ وَ ذَوَائِبِهِنَّ "
یعنی انسان کے بالوں کی خرید و فروخت اور اس سے کسی قسم کا نفع اٹھانا جائز نہیں ہے کیونکہ آدمی محترم ہے اس کے کسی جزء کو استعمال نہیں کیا جا سکتا, اور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا :
” اللہ تعالی ایسی عورت پر لعنت بھیجتا ہے جو اپنے بالوں میں (انسان یا خنزیرکے) بال ملاتی ہے یا ملواتی ہے”. ہاں عورت کا اپنے مینڈھیوں میں جانوروں کے بالوں کو استعمال کرنے میں رخصت ہے "۔
(البحر الرائق كتاب البيوع باب بیع الفاسد جلد 6 صفحہ 88 مطبوعہ دار الكتاب الاسلامی بیروت)
2-علامہ ابن ھمام رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فرماتےہیں :
"(لَعَنَ اللّٰہُ الْوَاصِلَةَ وَالْمُسْتَوْصِلَةَ) وَھٰذَا اللَّعْنُ لِلْاِنْتِفَاعِ بِمَالاَیَحِلُّ الْاِنْتِفَاعُ بِہٖ ،اَلاَتَرَی اَنَّہٗ رَخَّصَ فِیْ اِتِّخَاذِ الْقَرَامِیْلِ وَھُوَمَایُتَّخَذُ مِنَ الْوَبَرِ لِیَزِیْدَ فِی قُرُوْنِ النِّسَاءِ لِلتَّکْثِیْرِ ، فَظَھَرَ اَنَّ اللَّعْنَ لَیْسَ لِلتَّکْثِیْرِ مَعَ عَدَمِ الْکَثْرَةِ وَاِلاَّ لَمَنَعَ الْقَرَامِیْلُ وَلاَشَکَّ اَنَّ الزِّیْنَةَ حَلاَلࣨ, قَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ: قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَةَالَّتِیْ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ، فَلَو ْلاَلُزُوْمُ الْاِھَانَةِ بِالْاِسْتِعْمَالِ لَحَلَّ وَصْلُھَا بِشُعُوْرِ النِّسَاءِ اَیْضاً "
یعنی (لعن اللہ الواصلة والمستوصلة) یہ لعنت اس انتفاع کیلیے ہے جس کے ساتھ انتفاع حلال نہیں ،کیا تو نہیں دیکھتا کہ شرع نے موباف (جانوروں کے بالوں) کو ملانے میں رخصت دی ہے اور یہ اونٹ اور خرگوش وغیرہ کے بالوں سے بنایا جاتا ہے، تاکہ وہ عورتوں کی مینڈھیوں میں بالوں کو زیادہ کرنے کیلیے زیادتی کرے پس ظاہر ہوگیا کہ لعنت کم بالوں کیساتھ بالوں کو زیادہ کرنے کیلیے نہیں ورنہ موباف (جانوروں کےبال) بھی ضرور منع ہوتے، اور کوئی شک نہیں کہ زینت حلال ہے، اللہ تعالی نے فرمایا؛ تم فرماؤ کس نےحرام کی اللہ کی وہ زینت جو اس نے اپنے بندوں کیلیے نکالی ـ پس اگر (انسانوں کے بالوں کو) استعمال کرنے کیساتھ اہانت لازم نہ آتی تو بالوں کو عورتوں کے بالوں کیساتھ ملانا بھی ضرور حلال ہوتا ـ
(فتح القدیر البیع الفاسد)
3-ردالمحتار میں ہے:
"وَاِنَّمَا الرُّخْصَةُ فِی شَعْرِ غَیْرِ بَنِیْ اٰدَمَ تَتَّخِذُہٗ الْمَرْاَةُ لِتَزِیْدَ فِیْ قُرُوْنِھَا "
یعنی بنی آدم (انسانوں) کے بالوں کے علاوہ میں ہی رخصت ہے جن کو عورت ملاتی ہے تاکہ عورت اپنی مینڈھیوں (گیسیوں) میں اضافہ کرسکے ـ
(ردالمحتار علی الدرالمختار فصل فی النظر و اللمس جلد 9)
کتبہ : مفتی ابواسیدعبیدرضامدنی