ولی نے بالغہ لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر کرا دیا پھر لڑکی نے انکار کر دیا تو کیا حکم ہے ؟
سوال : ہندہ بالغہ کی شادی اس کے باپ نے بغیر اجازت بکر کے ساتھ اپنے گھر پر دس بجے رات میں کی. جب سویرا ہوا اور لوگوں کو معلوم ہوا کہ بکر کو ٹی وی کی بیماری ہے. یہ خبر جس وقت ہندہ کو معلوم ہوئی کہ بکر کو ٹی بی کی بیماری ہے اس پر اپنے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے ہندہ نے کہا کہ جس وقت میری شادی کی گئی تھی تو کیا مجھ سے پوچھا گیا تھا؟ میں نے کسی سے کہا کہ میری شادی بکر سے کردو؟ دریافت طلب امر یہ ہے کہ ہندہ کا نکاح بکر کے ساتھ ہوا کہ نہیں؟
الجوابـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بکر کے مبتلائے ٹی وی کی خبر سے پہلے ہندہ کو نکاح کی خبر پہنچی یا نہیں اگر پہنچی تو کس نے پہنچائی پھر خبر پہنچنے پر اس نے سکوت اختیار کیا یا کچھ کہا یا نہیں یار وئی اور عقد کے وقت ہندہ کنواری تھی یا ثیبہ؟
اگر ہندہ کوبکرکے مبتلائے ٹی وی کے ساتھ نکاح کی خبر ملی اور اس نے مذکورہ بالا جملے کہے تو نکاح باطل ہے ۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے ” لا یجوز نکاح احد علی بالغۃ صحیحۃ العقل من اب او سلطان بغیر اذنھا بکرا کانت او ثیبا فان فعل ذلک فالنکاح موقوف علی اجازتھا فان اجازتہ جاز وان ردتہ بطل. کذا فی السراج الوہاج.
اور اگر بیماری کی خبر سے پہلے ہندہ کو بکر کے ساتھ نکاح کی خبر دی گئی اور خبر دینے والا خود باپ یا اس کا قاصد یا کوئی فضولی عادل تھا اور وہ کنواری تھی پھر اس نے سکوت اختیار کیا یا ہنسی جب کہ استہزاء نہ ہو یا مسکرائی یا بغیر آواز کے روئ تو ان سب صورتوں میں اذن سمجھا جائے گا یعنی عقد ہو گیا ۔ اور اگر عقد ہونے کے وقت ہندہ کنواری نہیں تھی بلکہ ثیبہ تھی اور اس نے سکوت اختیار کیا تو نکاح نہ ہوا.
فتاوی عالمگیری میں ہے ” لو استاذن الثیب فلا بد من رضاھا بالقول وکذا اذا بلغھا الخبر ھکذا فی الکافی.
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب ۔
کتبــــــہ : مفتی جلال الدین احمد الامجدی
ماخوذ از فتاویٰ فیض الرسول جلد 1 صفحہ 675