باہر ملکوں میں رہنے والے صدقہ فطر کیسے ادا کریں از مفتی ارشاد رضا علیمی
علمائے اکرام سے گزارش یہ ہے کہ جو لوگ اپنے ملک سے باہر دوسرے ممالک میں کام کاج کے سلسلے میں گیے ہوئے ہیں وہ عید فطرانہ کیسے ادا کریں جو فطرانہ جس ملک میں مقرر کیا جائے اس حساب سے یا پھر اپنے ملک کے حساب سے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی انسان عرب شریف میں ہے تو کیا وہ عرب شریف کے مقرر فطرانے کی قیمت کے برابر وہ پیسے اپنے ملک میں کسی غریب کو دے سکتا ہے یا پھر جس ملک میں ہو اسی ملک میں کسی غریب کو دے عموماً بہرون ممالک میں جلدی کوہی غریب کسی کو ملتا بھی نہیں ہے کہ جو فطرانے کا حق دار ہو تو بہت سے لوگ ایسے لوگوں کو فطرانہ دے دیتے ہیں جو حد چالیس پچاس پچاس ہزار روپے مہینے کمانے والے ہوتے ہیں-
سائل:۔حاجی ممتاز تاس مقیم حال سعودی عرب
الجواب بعون الملك الوهاب
(۱)صدقہ فطر کی ادائیگی میں اس جگہ کا اعتبار ہے جہاں ادا کرنے والا رہتاہے، جو لوگ کام کاج کے سلسلے میں دوسرے ممالک میں گئے ہوئے ہیں وہ اسی ملک کے مقرر کردہ فطرانے کے حساب سے صدقہ فطر ادا کریں گے- فتاوی ہندیہ میں ہے: ”وفي صدقة الفطر يعتبر مكانه لا مكان أولاده الصغار وعبيده في الصحيح كذا في التبيين. وعليه الفتوى كذا في المضمرات” ترجمہ : اور صدقہ فطر میں جس کے ذمہ لازم ہے ،اس کے مکان کا اعتبار ہوگا، نہ کہ اس کی نابالغ اولاد اور اس کے غلاموں کے مکان کا صحیح قول کے مطابق ،اسی طرح تبیین میں ہے اور اسی پر فتوی ہے ،اسی طرح مضمرات میں ہے۔(فتاوی ھندیہ ،کتاب الزکاة، الباب السابع في المصارف،ج ١ ص ١٩٠، مطبوعہ کوئٹہ)
– فتاوی فیض الرسول میں سوال ہوا:
” زید بمبئی میں ہے اور اس کے بچے وطن میں ہیں، تو ان کے صدقہ فطر کے گیہوں کی قیمت وطن کے بھاؤ سے ادا کرے یا بمبئی کے بھاؤ سے ؟ اور زیورات جن کا وہ مالک ہے وہ وطن میں ہیں تو زکوۃ کی ادائیگی میں کہاں کا اعتبار ہے؟”
اس کے جواب میں فرمایا:
” بچے اور زیورات جب کہ وطن میں ہیں، تو صدقہ فطر کے گیہوں میں بمبئی کی قیمت کا اعتبار کرنا ہو گا اور زیورات میں وطن کی قیمت کا، لانہ یعتبرفی صدقة الفطر مكان المودى وفى الزكوة مکان المال، هكذا قال صاحب الهدایة فی کتاب الاضحیۃ۔ (فتاوی فیض الرسول، ج ١،ص، ٥١١ ، شبیر برادرز، لاہور)والله تعالیٰ اعلم
(۲) صدقہ فطر جس پر واجب ہے اسے چاہیے کہ اپنا صدقہ جس ملک یا شہر میں مقیم ہے وہیں کے فقرا ومساکین کو دے، دوسری جگہ نہ بھیجے-
بہار شریعت میں ہے:
"اور صدقہ فطر میں وہ شہر مراد ہے جہاں خود ہے،اگر خود ایک شہر میں ہے اس کے چھوٹے بچے اور غلام دوسرے شہر میں تو جہاں خود ہے وہاں کے فقرا پر صدقہ فطر تقسیم کرے”(ج ١ ح ۵ ص ٩٣٣/مکتبتہ المدینۃ دعوت اسلامی) والله تعالیٰ أعلم بالصواب
نوٹ:۔ سائل نے جو یہ بات ذکر کی ہے کہ”عموماً بیرون ملک جلدی کوئی غریب کسی کو ملتا بھی نہیں ہے کہ جو فطرانے کا حق دار ہو تو بہت سے لوگ ایسے لوگوں کو فطرانہ دے دیتے ہیں جو جو حد چالیس پچاس پچاس ہزار روپے مہینے کمانے والے ہوتے ہیں ” ایسی صورت میں صدقہ فطر دینے والے کو چاہیے کہ وہ جس ملک میں مقیم ہے وہیں کے کسی دیندار شخص کو وکیل بنادے تاکہ وہ مستحق تک اس کا فطرانہ پہنچا دے انجانے میں کسی صاحب نصاب کو نہ دے ورنہ صدقہ فطر ادا نہ ہوگا۔
کتبہ:۔ محمد ارشاد رضا علیمی غفرلہ مدرس دار العلوم رضویہ اشرفیہ ایتی راجوری جموں وکشمیر مقیم حال بالاسور اڑیسہ . ٢٩/ رمضان المبارك ١٤٤٤ھ مطابق ٢١/اپریل ٢٠٢٣ء
الجواب صحيح: کمال احمد علیمی نظامی دار العلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی