بغیر کسی شرعی مجبوری کے جماعت سے نماز نہ پڑھنے والے کا حکم

بغیر کسی شرعی مجبوری کے جماعت سے نماز نہ پڑھنے والے کا حکم

سوال : اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو مسجد سے متصل کمرے میں رہتا ہے، پیر بھی کہلاتا ہے، مگر وہ بغیر کسی شرعی مجبوری کے

جماعت سے نماز نہیں پڑھتا ۔ اس کے مرید کہتے ہیں کہ ہمارے حضرت پر ذکر کی کیفیت طاری رہتی ہے اس لیے نماز میں شامل نہیں ہوتے تاکہ

دوسرے کی نماز خراب نہ ہو ۔ جب کہ باقی اوقات میں وہ باتیں کرتا رہتا ہے؟

الجوابـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

یہ شیطانی وسوسہ اور نماز نہ پڑھنے کے لئے جھوٹا حیلہ وبہانہ ہے ۔ کیا سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سے بڑھ کر یا کبار صوفیا سے بڑھ

کر وہ شخص ہے کہ ذکر کی کیفیت ایسی طاری ہوجاتی ہے کہ جماعت کا ہوش بھی نہیں رہ جاتا یا اس کے باعث اس سے جماعت معاف ہوجاتی

ہے ۔ نماز میں خشوع و خضوع کی کیفیت طاری ہونی چاہیے مگر اس لیے تاکہ بندہ اپنے رب کے ذکر اور اس کے یاد میں مستغرق رہے، اس لیے نہیں

کہ لوگوں کو پریشان کرے ۔ نماز فرض ہے اور مسجد میں جاکر جماعت میں شامل ہونا واجب ہے یعنی جماعت بھی واجب اور جماعت کے لیے مسجد

جانا بھی واجب ۔ تو یہاں دو دو واجب ہوئے ۔ لہٰذا اس پر فرض ہے کہ وقت سے نماز ادا کرے ۔ نیز اس پر واجب ہے کہ جماعت سے نماز پڑھنے اور یہ

جھوٹے حیلے بہانے چھوڑ دے ۔ ایک سے ایک صاحب کشف اولیا گزرے ہیں  ان پر کبھی بھی ایسی کیفیت طاری نہیں ہوئی کہ نماز میں وہ دوسرے

کو پریشان کریں ۔ حضور صل اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سے بڑھ کر کون ذاکر ہوگا کہ ہر وقت ہر لمحہ ذکر الہی میں گزر تا تھا اور خود آپ پانچوں وقت

با جماعت ادا فرماتے تھے بلکہ حکم دیتے تھے :

"صلوا کما رایتمونی اصلی”

تم نماز پڑھوجیسا مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو ۔

اس لیے پیر مذکورہ کا وہ حیلہ جھوٹا ہے اور شیطانی وسوسہ ہے ۔ اس سے وہ باز آئے اگر وہ باز نہیں آتا ہے تو مسلمانوں پرفرض ہے کہ ایسے پیر

سے بیعت توڑ دیں اور اس سے جدا ہو جائیں ۔ جب مسلمان اس سے اپنا تعلق ختم کرلیں گے اور بیعت توڑ دیں گے تو اس کو خود بخود اپنی غلطی

کا احساس ہوجائے گا اور جو حیلہ وبہانہ وہ پیش کررہا ہے امید ہے کہ اس سے باز آجائے گا اور اللہ کے فرائض ادا کرےگا ۔

واللہ تعالیٰ اعم

کتبـــــــــہ : مفتی نظام الدین رضوی جامعہ اشرفیہ مبارک پور 

Leave a Reply