عنوان : بڑے بھائی کی بیوہ سے نکاح کا حکم از کمال احمد علیمی نظامی
سوال : بڑے بھائی کا انتقال ہو جائے چھوٹا بھائی اپنی بھابھی اور بچوں کی کفالت کی ذمہ داری اٹھانے کا فیصلہ کر لیا سال دو سال کے بعد سوچا میں کیوں نہ بھابھی سے نکاح کرلوں تو کیا وہ نکاح کر سکتا ہے اپنی بھابھی سے. مسئلہ یہ ہے پہلے کفالت کی ذمہ داری کی اب نکاح کرنا چاہتا ہے سال دو سال گزر جانے پر جواب قرآن و حدیث کی روشنی میں طلاق شدہ عورت کی عدت اور بیوہ کی عدت کی وضاحت عنایت فرمائے.
الجواب بعون اللہ الوھاب :
تکمیل عدت کے بعد بیوہ بھابھی سے نکاح جائز ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
ۚ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ ۚ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ۔
ترجمہ: ان عورتوں کے علاوہ سب تمہیں حلال ہیں کہ تم انہیں اپنے مالوں کے ذریعے نکاح کرنے کو تلاش کرونہ کہ زنا کے لئے توان میں سے جن عورتوں سے نکاح کرناچاہو ان کے مقررہ مہر انہیں دیدو اور مقررہ مہر کے بعد اگر تم آپس میں (کسی مقدار پر) راضی ہوجاؤ تو اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں ۔ بیشک اللہ علم والا، حکمت والا ہے۔
(سورۃ النساء، رقم الایۃ: 24)
مطلقہ اگر حیض والی تو اس کی عدت تین حیض ہے، اور اگر کم عمری کی وجہ سے حیض نہ آیا ہو تو زیادہ عمر (سن ایاس) کی وجہ سے آنا بند ہوگیا ہو تو اس کی عدت تین مہینہ ہے۔اور اگر عورت حاملہ ہو تو اس کی عدت بچہ کی پیدائش سے مکمل ہوگی.
بیوہ اگر حاملہ ہو تو اس کی عدت پیدائش سے مکمل ہوگی اور اگر حاملہ نہ ہو تو خواہ کم سن ہو یا سن رسیدہ (آئسہ) یا حیض والی تو اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے.
قرآن مجید میں ارشاد ہے :
يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ
ترجمہ: اے نبی!( امت سے فرمادیں کہ) جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے وقت پر انہیں طلاق دو اور عدت کو شمارکرتے رہواور اللہ سے ڈروجو تمہارا رب ہے۔تم عورتوں کوان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود نکلیں مگر یہ کہ کسی صریح برائی کا ارتکاب کریں
[سورة الطلاق:1].
نیز ارشاد ہے:
وَٱلْمُطَلَّقَٰتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَٰثَةَ قُرُوٓءٍۢ ۚ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَن يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ ٱللَّهُ فِىٓ أَرْحَامِهِنَّ إِن كُنَّ يُؤْمِنَّ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلاخِرِ ۚ
ترجمہ: اور طلاق والی عورتیں اپنی جانوں کو تین حیض تک روکے رکھیں اور انہیں حلال نہیں کہ اس کوچھپائیں جو اللہ نے ان کے پیٹ میں پیدا کیا ہے اگر اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتی ہیں۔
(البقرۃ :٢٢٨)
ایک جگہ اور اللہ کا فرمان ہے:
وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ ۚ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ
ترجمہ: اور تمہاری عورتوں میں جو حیض سے ناامید ہوچکی ہوں اگر تمہیں کچھ شک ہو تو ان کی اور جنہیں حیض نہیں آیاان کی عدت تین مہینے ہے اور حمل والیوں کی عدت کی مدت یہ ہے کہ وہ اپنا حمل جن لیں۔
(الطلاق :٤)
ارشاد ہے:
وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ۖ فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ.
ترجمہ: اور تم میں سے جو مرجائیں اور بیویاں چھوڑیں تو وہ بیویاں چار مہینے اوردس دن اپنے آپ کو روکے رہیں تو جب وہ اپنی(اختتامی) مدت کو پہنچ جائیں تو اے والیو! تم پر اس کام میں کوئی حرج نہیں جو عورتیں اپنے معاملہ میں شریعت کے مطابق کرلیں اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔
(البقرۃ:٢٣٤)
عدت سے متعلق مزید معلومات کے لئے بہار شریعت (حصہ ہشتم عدت کا بیان) کا مطالعہ کریں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ :کمال احمد علیمی نظامی دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی
٣ربیع النور ١٤٤٣ /١٠ اکتوبر ٢٠٢١
الجواب صحیح محمد نظام الدین قادری خادم درس و افتاء جامعہ علیمیہ جمدا شاہی