بدشگونی لینا کیسا؟ کیا آٹھ، اٹھارہ اور اٹھائیس تاریخیں منحوس ہیں؟

بدشگونی لینا کیسا؟
کیا آٹھ، اٹھارہ اور اٹھائیس تاریخیں منحوس ہیں؟

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ.الاستفتاء امید ہے کہ بخیر ہوں گے یہ جو عوام میں مشہور ہے کہ چاند کی آٹھ، اٹھارہ اور اٹھائیس تاریخ کو سفر کرنا خطرے کا باعث ہے یہ کہاں تک درست ہے تحقیقی جواب عنایت فرمائیں.
آپ کی عین نوازش ہوگی ۔
المستفتی : عبد الرؤوف القادری. جموں کشمیر.

وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُاللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الـــجــــــــــوابــــــــــــــــــــــــ

قرآن مجید میں اللہ پاک ارشاد فرماتاہے:"قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَاۤ اِلَّا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَنَاۚ-هُوَ مَوْلٰينَاۚ-وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ”(التوبہ). ترجمہ:”تم فرماؤ ہمیں وہی پہنچے گا جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا، وہ ہمارا مددگار ہے اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے.” اور فرماتاہے:

"وَمَا أصابكم مّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُواْ عَن كَثِيرٍ”(الشوری). ترجمہ:”اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے اور بہت کچھ تووہ معاف فرمادیتا ہے ۔”

ان آیات سے واضح ہے کہ جو بھلائی یا مصیبت کسی کو پہنچتی ہے وہ سب لوح محفوظ میں مکتوب ہے، وہ پہنچ کر رہے گی، یہ آٹھ، اٹھارہ اور اٹھائیس تاریخیں سب اللہ پاک کی بنائی ہوئی ہیں ۔ اگر کسی کو کوئی مصیبت ان تاریخوں میں پہچنا لکھاہے تو یہ تاریخیں اسے قطعاً نہیں بچاسکتیں اور اگر نہیں لکھا ہے تو یہ تاریخیں اسےکوئی مصیبت نہیں پہنچا سکتیں، لہذا مومن کو اللہ ہی بھروسہ کرنا چاہیے ۔

جولوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان تاریخوں میں سفر نہیں کرنا چاہیے کہ یہ تاریخیں خطرے کا باعث ہیں تو ان کاخیال باطل ہے اور ان کی یہ توہم پرستی ہے،یہ بربنائے جہالت ہے، اسلام کا اس سے کوئی تعلق نہیں، اسلام نے ان چیزوں کو مٹایا ہے.
اب اگر مثلاً کسی نے آٹھ اٹھارہ اٹھائیس کی تاریخ میں سفر کیا اور کوئی مصیبت پہنچی، مثلاً: ایکسیڈنٹ ہوگیا تو کیا ان تاریخوں کی وجہ سے اس کا ایکسیڈنٹ ہوا؟؟ ہرگزنہیں، قطعاً نہیں،بلکہ یہ اس کی تقدیر میں تھا، اگر وہ بندہ گنہ گار تھا تو اس کے اپنے کرتوت کی وجہ سے اسے یہ مصیبت پہنچی، یا نیکوکار تھا تو اس کے لیے یہ امتحان تھا کہ اللہ اپنے بندوں کو امتحان میں ڈال کر اسے آزماتا بھی ہے ۔

اور اگر کوئی نہ مانے اور ان تاریخوں کو منحوس ہی مانے تو مجھے بتائے کہ کیا حالت سفر میں انہی تین تاریخوں میں ایکسیڈنٹ ہوتا ہے؟

اور دوسری تاریخوں مثلاً ٩،،٧،٦،٥،٤،٣،٢،١ اور١٧، ١٦،١٥،١٤،١٣اسی طرح ٢٧،٢٦،٢٥،٢٤،٢٣،٢١،٢٠،اور١٩میں کسی کا ایکسیڈینٹ نہیں ہوتاہے؟ میں تو کہوں گا کہ ان تاریخوں میں بھی ہوتاہے، یقین نہ ہوتو میڈیا وغیرہ مختلف ذرائع سے تحقیق کی جائے.تو جب مہینے کے کسی بھی دن تکلیف پہنچ سکتی ہے تو وہی تین تاریخیں منحوس کیوں؟؟ اور یہ دوہرا نظریہ کیوں؟ لہذا ماننا پڑےگا کہ پورے مہینے میں کوئی بھی تاریخ منحوس نہیں اور نہ تکلیف پہنچانےمیں ان کاکوئی عمل دخل،بلکہ ہوتا وہی ہے جو لکھا ہوتاہے، اچھی چیزیں اللہ تعالی کی جانب سے ہیں اور بری چیزیں جو بندےکو پہنچیں وہ خود اس کے ہاتھوں کی کمائی ہیں ۔

البتہ صرف تین چیزوں میں نحوست ہوسکتی ہے، لیکن اس خیال باطل کے ساتھ نہیں بلکہ یہ ظاہری تکلیف ہے، حدیث شریف میں ہے:
"حدثني عبد الله بن محمد حدثنا عثمان بن عمر حدثنا يونس عن الزهري عن سالم عن ابن عمر رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ((لا عدوى ولا طيرة، والشؤم في ثلاث في المرأة، والدار، والدابة)).”(بخاری شریف:رقم الحدیث:٥٧٥٣)

شرح بخاری عمدة القاری میں اس کا خلاصہ یہ بیان کیا گیاکہ نحوست اگر کسی چیز میں ہوسکتی ہے تو وہ تو تین چیزیں ہیں، عورت، گھر اور جانور.اور اس کامطلب کیا ہے؟ اس کےلیے فتاوی رضویہ کی عبارت دیکھیں:

"شرعا گھر کی نحوست یہ ہے کہ تنگ ہو، ہمسائے برے ہوں، گھوڑے کی نحوست یہ کہ شریر ہو ، بدلگام ، بدرکاب ہو، عورت کی نحوست یہ کہ بدزبان ہو، بدرویہ ہو، باقی وہ خیال کہ عورت کے پہرے سے یہ ہوا، فلاں کے پہرے سے یہ، یہ سب باطل اور کافروں کے خیال ہیں ۔ ”

(ج:٢١،ص:٣٠موبائل ایک سائز)

تو ثابت ہواکہ نحوست کسی اور چیز میں نہیں ہے، جو اس طرح کا خیال باطل اور توہم پرستی رکھتے ہیں وہ اپنے ذہن ودماغ سے یہ نکال دیں اور اسلامی عقیدے کے مطابق اپنا خیال درست کرلیں ۔

واللہ تعالی اعلم ۔

کتبـــــــــــہ:عدیل احمد قادری علیمی مصباحی بلرام پوری 
٢٦/ربیع الاول، ١٤٤٣ھ،بروز دوشنبہ مبارکہ

Leave a Reply