اذان کے دوران کس قسم کی باتیں کی جاسکتی ہیں؟
سوال:(۱) اذان کے درمیان باتیں کرنے پر کیا حکم ہے؟ کس قسم کی باتیں اذان کے درمیان کرسکتے ہیں؟
(۲) کیا مسجد میں دنیوی باتیں کرسکتے ہیں؟ اور کس طرح کی دنیوی باتیں کرسکتے ہیں؟
سائل : محمد اویس اقصی کالونی مالیگاؤں
الجواب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
اذان کے وقت اذان کا جواب دینا چاہیے ، کسی قسم کی باتوں میں یا دوسرے اعمال میں مشغول نہیں ہونا چاہیے ۔ ولا یشتغل بقرا ء ة القرآن ولا بشئی من الأعمال سوی الاجابة ۔ ( الفتاوی الہندیة : ۵۷/۱)
(۲) مسجد میں بلا ضرورت دنیاوی باتیں کرنا ممنوع اور آداب مسجد کے خلاف ہے ، مسجد میں عبادات، ذکر، تلاوت وغیرہ میں مشغول ٍرہنا چاہیے ، اگر کوئی ضرورت پیش آجائے ، تو بقدر ضرورت مباح بات کرنے کی گنجائش ہے ؛ لیکن دنیاکی باتیں کرنے کے لیے باقاعدہ مسجد میں مجلس لگانا بالاتفاق مکروہ ہے اور مسجد میں غلط قسم کی باتیں کرنا بالکل ناجائز ہے ۔لیکن یہ کام کر سکتے ہیں.. کسی شرعی دینی مسائل پر بحث، درس وتدریس اور لوگوں کو مسائل بتانے کے لیے.. افہام و تفہیم کے لیے نکاح کی محفل میں، نماز جمعہ سے قبل، اور دیگر اوقات میں عوام سے فائدہ مند گفتگو کرنا سب جائز ہے ۔
قال الحصکفی : والکلام المباح؛ وقیدہ فی الظہیریة بأن یجلس لأجلہ لکن فی النہر الإطلاق أوجہ۔قال ابن عابدین : (قولہ بأن یجلس لأجلہ) فإنہ حینئذ لا یباح بالاتفاق لأن المسجد ما بنی لأمور الدنیا.وفی صلاة الجلابی: الکلام المباح من حدیث الدنیا یجوز فی المساجد وإن کان الأولی أن یشتغل بذکر اللہ تعالی، کذا فی التمرتاشی ہندیة وقال البیری ما نصہ: وفی المدارک – {ومن الناس من یشتری لہو الحدیث} [لقمان: 6] المراد بالحدیث الحدیث المنکر کما جاء الحدیث فی المسجد یأکل الحسنات کما تأکل البہیمة الحشیش ۔انتہی. فقد أفاد أن المنع خاص بالمنکر من القول، أما المباح فلا.
( الدر المختار مع رد المحتار : ۶۶۲/۱، کتاب الصلاة، ط: دار الفکر، بیروت )
وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالی علیہ وسلم
کتبــــــہ : مفتی محمدرضا مرکزی
خادم التدریس والافتا
الجامعۃ القادریہ نجم العلوم مالیگاؤں