کیا یہ مصرعہ اے سبز گنبد والے منظور دعا کرنا درست ہے ؟
سوال : کیا یہ مصرعہ اے سبز گنبد والے منظور دعا کرنا درست ہے ؟ ایک شخص اس مصرعہ کو نامناسب اور غلط کہتا ہے اس بنیاد پر کہ دعا ایک عبادت ہے اور عبادت صرف اللہ تعالیٰ کی جاسکتی ہے, دعا منظور کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی شان نہیں ؟
الجوابـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
قرآنِ پاک میں لفظِ دعا کو مختلف معانی میں استعمال کیا گیا ہے جن میں سے لفظِ دُعا کو بعض معانی کے اعتبار سے غیراللہ کیلیے جائز قرار دیا گیا. جیسے پکارنا, بلانا وغیرہ البتہ کچھ معانی کے اعتبار سے لفظ دعا غیراللہ کیلیے استعمال نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہی استعمال ہوسکتے ہیں جیسے عبادت, دعا کرنا.
تو جب قرآنِ پاک میں لفظِ دُعا کو پکارنے اور بلانے کے معانی کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے علاوہ کیلئے روا جائز رکھا گیا تو قرآن پاک کی اتباع کرتے ہوئے اگر کوئی لفظِ دعا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کیلیے ایسے معانی کے اعتبار سے استعمال کرے تو اس میں کوئی قباحت و حرج نہیں.
چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
1- "والرسولُ یَدعُوْکم فی اُخْرٰکم”
ترجمہ: اور رسول تم کو تمہارے پیچھے پکارتے تھے.
(پارہ 4, ال عمران : 153)
2- "لاتجعلوا دعاء الرسول بینکم کدعاء بعضکم بعضا”
ترجمہ: رسول کے پکارنے کو بعض کے بعض کو پکارنے کی طرح نہ بناؤ.
(پارہ 18, النور : 63)
ان دونوں آیات میں لفظِ دعا کو پکارنے کے معنی میں غیر اللہ کے لیے جائز رکھا گیا ہے.
ایک اور مقام پر ارشادِ بارِی تعالیٰ ہے :
"ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر”
ترجمہ: اور تم میں ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے جو بھلائی کی طرف بلائے.
(پارہ 4, ال عمران : 104)
اس آیتِ مبارکہ میں لفظِ دُعا کو بلانے کے معنی میں غیراللہ کیلئے جائز قرار دیا گیا.
البتہ دعا کو عبادت یا دعا کرنے کے معانی کے اعتبار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کیلئے استعمال کرنا ناجائز و حرام بلکہ کفر و شرک ہے اور کوئی مسلمان ان معانی کے اعتبار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کیلئے لفظِ دُعا استعمال کرتا نہیں.
چنانچہ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃاللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"دعا دعو یا دعوت سے بنا ہے جس کے معنی بلانا یا پکارنا ہے قرآن شریف میں لفظِ دعا پانچ معنی میں استعمال ہوا ہے :
1-پکارنا
2-بلانا
3-مانگنا یا دعا کرنا
4-پوچنا یعنی معبود سمجھ کر پکارنا
5-تمنا, آرزو کرنا”.
(علم القرآن لترجمۃ الفرقان صفحہ 93 مکتبۃ المدینہ کراچی)
ایک اور مقام پر مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"ان جیسی تمام وہ آیات جن میں غیرِ خدا کی دعا کو شرک و کفر کہا گیا یا اس پر جِھڑکا گیا, ان سب میں دعا کی معنی عبادت (پوجا) اور یدعون کے معنی ہیں وہ پوجتے ہیں”.
(علم القران صفحہ 96 مکتبۃ المدینہ کراچی)
مزید فرماتے ہیں :
"دعا کے لغوی معنی پکارنے ہیں, اور اصطلاحی معنی عبادت ہیں, قرآنِ پاک میں یہ لفظ دونوں معنوں میں استعمال ہوا , جہاں دعا کی اجازت ہے وہاں لغوی معنی پکارنا مراد ہیں اور جہاں غیر خدا کی دعا سے ممانعت ہے وہاں عرفی معنی پوجنا مراد ہیں”.
(علم القران صفحہ 98 مکتبۃ المدینہ کراچی)
فروزاللغات میں لفظِ دُعا کے درج ذیل معانی ذکر کیے گئے ہیں :
1-خدا سے مانگنا
2-التجا
3-التماس
4-دعا کی عبارت
5-مناجات
6-مغفرت کی طلب
7-کسی کی بہتری کی خواہش
8-مراد
9-سلام
10-مبارک
11-اشیرباد
(فیروز اللغات صفحہ 629 فیروز سننز)
لہذا یہ مصرعہ
"اے سبز گنبد والے منظور دعا کرنا”
بالکل درست ہے کیونکہ یہاں لفظِ دعا عبادت یا دعا کرنے کے معنی میں نہیں بلکہ پکارنے تمنا و آرزو کرنے وغیرہ کے معنی ہے تو ان معانی کے اعتبار سے اس شعر کا مطلب یہ بنے گا :
"اے سبز گنبد والے (آقا) صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہماری دعا یعنی پکار کو یا آرزو ومراد کو منظور فرمائیے”.
لہذا اس مصرعہ کو مطلقا غیر مناسب و غلط کہنا بالکل درست نہیں بلکہ لفظِ دعا کے اوپر بیان کردہ مختلف معانی سے عدمِ واقفیت کی بنا پر ہے.
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ والہ و سلم
کتبہ : مفتی ابواُسَیْدعبیدرضامدنی
اور اس نعت کو انڈین گانے "بچپن کی محبت کو دل سے نہ بھلا، دینا جب یاد میری آئے ملنے کی دعا کرنا” کی طرز پر جھوم جھوم کر پڑھنا اور ساتھ ساتھ نذرانے بٹورنا جائز ہے؟