عورت کو کِن اعضاء کے چھپانے کا جکم ہے؟
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔
علماء کرام و مفتیان عظام کی بارگاہ میں ایک سوال عرض ہے کہ عورت کے بدن کا کتنا حصہ ستر عورت ہے اور عورت کی آواز غیر محرم سن سکتا ہے کہ نھیں؟ اور عورت کی آواز بھی عورت ہے ؟ ان سب سوالوں کے جواب عطا فرما دیں بڑی مہربانی ہوگی۔
سید ظہیر اشرف
الجوابـــــــــــــــــــــــــــــ
(١) چند اعضاء کو مستثنی کرکے (یعنی: چھوڑ کر) آزاد عورت کا پورا بدن عورت ہے ۔یعنی مثلاً نماز میں ان کا چھپانا ضروری ہے ۔
وہ اعضاء جو مستثنی ہیں درج ذیل ہیں:
(١) : منہ کی ٹکلی، لیکن عورت کو اجنبیوں کے سامنے احتمالِ فتنہ کے سبب چہرہ کھولنے کی بھی ممانعت ہے۔تنویر الابصار اور در مختار میں ہے:
"(فَإِنْ خَافَ الشَّهْوَةَ) أَوْ شَكَّ (امْتَنَعَ نَظَرُهُ إلَى وَجْهِهَا) فَحِلُّ النَّظَرِ مُقَيَّدٌ بِعَدَمِ الشَّهْوَةِ وَإِلَّا فَحَرَامٌ وَهَذَا فِي زَمَانِهِمْ، وَأَمَّا فِي زَمَانِنَا فَمَنَع مِنْ الشَّابَّةِ قُهُسْتَانِيٌّ وَغَيْرُهُ"(در مختار : کتاب الحظر والاباحة)
(٢) اور (٣) : دونوں ہتھیلیاں
ان تین اعضاء کے عورت نہ ہونے پر ائمہ حنفیہ رحمہم اللہ تعالی کا اتفاق ہے۔
(۴) اور (۵): دونوں قدم کے پشت، یعنی: پیر کے ٹخنوں کے نیچے سے ناخنِ پا تک۔(ٹخنوں کا چھپانا ضروری ہے)یہ دونوں بھی صاحب خلاصہ کی صراحت کے مطابق بالاتفاق عورت نہیں۔مگر بعض فقہاء کے کلام سے ظاہر یہ ہے کہ دونوں پشتِ قدم کے عورت ہونے میں بھی اختلافِ اقوال ہے، لہذا احتیاط مناسب ہے۔لیکن دوسرے قول پر عمل کی رخصت کی گنجائش بھی موجود ہے۔
(٦) اور (٧): دونوں پاوں کے تلوے۔صاحب ہدایہ،امام قاضی خان اور امام نسفی نے ان دونوں اعضاء کے عورت نہ ہونے کی تصحیح فرمائی ہے۔لیکن مسئلہ ائمہ احناف کے مابین اختلافی ہونے کے سبب یہاں بھی احتیاط مناسب ہے، لیکن دوسرے قول پر عمل کی رخصت کی گنجائش یہاں بھی موجود۔
اس طرح کل سات اعضاء مستثنی ہوئے۔ان کو چھوڑ کر آزاد عورت کا پورا بدن عورت ہے۔جن کی تعداد اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کی صراحت کے مطابق تیس یا اٹھائیس یا چھبیس ہے۔
اب فتاوی رضویہ کی عبارتیں پیش ہیں:
"زنِ آزاد کا سارا بدن سر سے پاؤں تک سب عورت ہے مگر منہ کی ٹِکلی اور دونوں ہتھیلیاں، کہ یہ بالاجماع، اور عبارتِ خلاصہ سے مستفاد کہ ناخنِ پا سے ٹخنوں کے نیچے جوڑ تک پشتِ قدم بھی بالاتفاق عورت نہیں۔ تلووں اور پشتِ کفِ دست میں اختلافِ تصحیح ہے۔اصل مذہب یہ کہ وہ دونوں بھی عورت ہیں”(فتاوی رضویہ ج٣ص۵ ، ٦)
نیز تحریر فرماتے ہیں:
"ملاحظہ حلیہ وغنیـہ و بحر و ردالمحتار وغیرہا سے ظاہر کہ قدمِ حرہ میں ہمارے علماء رضی ﷲتعالٰی عنہم کو اختلافِ شدید مع اختلافِ تصحیح ہے، بعض کے نزدیک مطلقاً عورت ہے ،امام اقطع نے شرح قدوری اور امام قاضی خان نے اپنے فتاوٰی میں اس کی تصحیح اور حلیہ میں بدلیل احادیث اسی کی ترجیح کی، امام اسبیجابی و امام مرغینانی نے اسی کو اختیار فرمایا۔ بعض کے نزدیک اصلاً عورت نہیں۔ امام برہان الدین نے ہدایہ اور امام قاضی خان نے شرح جامع صغیر اور امام نسفی نے کافی میں اسی کی تصحیح فرمائی، اسی کو محیط میں اختیار کیا اور دُرمختار میں معتمد اور مراقی الفلاح میں اصح الروایتین کہا، کنز وغیرہ اکثر متون کتاب الصلوٰۃ میں اسی طرف ناظر ہیں۔بعض کے نزدیک بیرونِ نماز عورت ہیں، نماز میں نہیں ، یعنی اجنبی کو انکا دیکھنا حرام ،مگر نماز میں کھل جانا مفسد نہیں، اختیار شرح مختار میں اسی کی تصحیح فرمائی۔ پھر کلامئ خلاصہ وغیرہا سے مستفاد کہ یہ اختلافات صرف تلووں میں ہیں، پشتِ قدم بالاتفاق عورت نہیں ، مگر کلام علامہ قاسم و حلیہ وغنیہ وغیرہا سے ظاہر کہ وہ بھی مختلف فیہ ہے اور شک نہیں کہ بعض احادیث اس کے عورت ہونے کی طرف ناظر کما یظہر بمراجعۃ الحلیۃ وغیرہا ۔ تو اگر زیادتِ احتیاط کی طرف نظر کی جائے تو نہ صرف تلووں بلکہ ٹخنوں کے نیچے سے ناخنِ پا تک سارے پاؤں کو عورت سمجھا جائے ، یوں بھی شمارِ اعضاء تیس۳۰ ہی رہے گا اور اگر آسانی پر عمل کریں تو سارے پاؤں عورت سے خارج ہوکر اعضاء اٹھائیس ۲۸ ہی رہیں گے۔آدمی ان معاملات میں مختار ہے جس قول پر چاہے عمل کرے۔”
(فتاوی رضویہ ج٣ص٧)
نیز تحریر فرماتے ہیں:
"پشتِ دست اگر چہ اصل مذہب میں عورت ہے مگر من حیث الدلیل یہی روایت قوی ہے کہ گٹوں سے نیچے ناخن تک دونوں ہاتھ اصلاً عورت نہیں۔”
(فتاوی رضویہ ج٣ص٨)
پھر پشتِ دست کے عورت نہ ہونے پر دلائل ذکر کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں:
"تو روایت قوی پر دو پشتِ دست نکال کر اٹھائیس ہی عضو عورت رہے ، اور اگر بنظر آسانی اُس قول مصحح پر عمل کرکے تلوے بھی خارج رہیں تو صرف چھبیس ہی ہیں اور اصل مذہب پر تیس۳۰۔”
(فتاوی رضویہ ج٣ ص ٨)
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔
(٢):عورت کی آواز بھی عورت ہے،یعنی اُس کا نامحرموں کو آواز سنانا اور اُن کا بالقصد سننا ناجائز ہے۔ اسی لیے فقہائے عظام نے عورت کے اذان کہنے کو ناجائز قرار دیا ہے۔ نیز حج کے موقع پر عورت کو حکم ہے کہ بلند آواز سے تلبیہ نہ پڑھے۔۔امام احمد رضا قدس سرہ العزیز سے سوال ہوا:
"عورتوں کابیانِ میلادِ شریف آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم زنانی محفل میں بآواز بلند نثر ونظم پڑھنا اور نظم خوش آواز ولحن کے ساتھ پڑھنا اورمکان کے باہر سے ہمسایہ کے مردوں اور نامحرموں کا سننا تو ایسا پڑھنا جائز ہے یا ناجائزہے؟
تو آپ نے اس کا درج ذیل جواب تحریر فرمایا:
"عورت کا خوش الحانی سے بآواز پڑھنا کہ نامحرموں کو اس کے نغمہ کی آواز جائے حرام ہے نوازل میں فقیہ ابواللیث میں ہے:نغمۃ المرأۃ عورۃ ۔کافی امام ابوالبرکات نسفی میں ہے:”لاتلبی جھرا ؛ لا ن صوتھا عورۃ”۔امام ابوالعباس قرطبی کی کتاب السماع پھر بحوالہ علامہ علی مقدسی امداد الفتاح علامہ شرنبلالی پھر ردالمحتار علامہ شامی میں ہے:”لانجیز لھن رفع اصواتھن ولا تمطیطھا ولا تلیینھا وتقطیعھا لما فی ذٰلک من استمالۃ الرجال الیھن وتحریک الشہوات منھم، ومن ہذا لم یجز ان تؤذن المرأۃ"(فتاوی رضویہ ج ٩ص ١۴٧، ١۴٨ )
واللہ سبحانہ تعالی اعلم
کتبہ: مفتی محمد نظام الدین قادری
خادم درس وافتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی۔
١٠/ربیع الآخر ١۴۴٣ھ//١٦/نومبر ٢٠٢١ء