کیا عورت عدت میں عیادت یا کسی اہم گورنمنٹی ورک یا بہت ضروری کام کے لئے جاسکتی ہے یا نہیں؟
سوال: بیوہ یا مطلقہ کو حالتِ عدت میں کن اُمور سے بچنا ضروری ہے؟ کیا عدت میں عورت بیمار کو دیکھنے جا سکتی ہے؟
سائل : محمد غفران رضا پونہ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
عام حالات میں عیادت کے لئے معتدہ کا گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے؛ لیکن کسی قریبی عزیز کی حالت نازک ہوجائے اور معتدہ اس کی وجہ سے اتنی بے چین ہو کہ اُس کے دیکھے بغیر چین ہی نہ آئے، تو علاج ومعالجہ کے لئے گھر سے نکلنے کی رخصت پر قیاس کرتے ہوئے دن میں کسی وقت عیادت کرکے آنے کی گنجائش ہے؛ لیکن رات عدت والے گھر ہی میں گذارنی ضروری ہوگی ۔
عن ابن جریج قال: قلت لعطاء: الرجل یطلق المرأۃ فلا یبتہا، أیستأذن؟ قال: لا، ولکن یستأنس، وتحذر ہي، وتشوف لہ، فإن کان لہ بیتان، فیجعلہا في أحدہما، وإن لم یکن لہ إلا بیت واحد، فلیجعل بینہ وبینہا سترًا۔
(المصنف لعبد الرزاق، الطلاق / باب استأذن علیہا ولم یبتہا ۶؍۳۲۴ رقم: ۱۱۰۲۷)
وتعتدان أي معتدۃ طلاق وموت في بیت وجبت فیہ، ولا یخرجان منہ إلا أن تخرج أو ینہدم المنزل أو تخاف إنہدامہ أو تلف مالہا أو لا تجد کراء البیت ونحو ذٰلک من الضرورات، فتخرج لأقرب موضع إلیہ ۔
(الدر المختار مع الشامي، باب العدۃ / فصل في الحداد ۵؍۲۲۵ زکریا، ۳؍۵۳۶ کراچی، الہدایۃ ۲؍۴۲۸-۴۲۹، مجمع الأنہر ۲؍۱۵۵ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
ویعرف من التعلیق أیضًا أنہا إذا لہا قدر کفایتہا، صارت کالمطلقۃ فلا یحل لہا أن تخرج لزیارۃ ونحوہا لیلاً ونہارًا۔
(فتح القدیر / فصل علی المبتوتۃ والمتوفی عنہا زوجہا الحداد ۴؍۳۴۳)
♦️معتدہ اگر نکلنے پر لاچار ہو جائے تو اس وقت گھر سے نکلنے کی اجازت ہے مثلا:
معتدہ اتنی بیمار ہو جائے کہ ڈاکٹر کو دکھانا ضروری ہو محض حال کہہ کر دوا نہ مل سکتی ہو اور ڈاکٹر کو گھر پر بلانے کی استطاعت نہ ہو یا ایسی تکلیف ہو جائے کہ عورت کو ہسپتال لے جانا ضروری ہو۔
مکان گرنے کا خطرہ ہو تو دوسری جگہ منتقل ہو سکتی ہے۔
عدت والی عورت کے والدین میں سے یا اولاد میں سے کسی کا یا بھائی بہن کا انتقال ہو جائے یا ان میں سے کوئی بہت بیمار ہو اور کوئی اور دیکھ بھال کرنے والا نہ ہو اور وہاں جائے بغیر بہت رنج و غم ہوتا ہو تو عدت والی عورت ان وجوہات سے دن دن میں نکل سکتی ہے۔
(و معتدۃ الموت تخرج یوما و بعض اللیل) لتکتسب لا جل قیام المعیشۃ لانہ لا نفقۃ لھا حتی لوکان عندھا کفایتھا صارت کالمطلقۃ فلا یحل لھا ان تخرج لزیارۃ ولا لغیرھا لیلا و لا نھارا و الحاصل ان مدار الحل کون خروجھا بسبب قیام شغل المعیشۃ فیتقدر بقدرہ فمتی انقضت حاجتھا لا یحل لھا بعد ذلک صرف الزمان خارج بیتھا کذا فی فتح القدیر و اقول لو صح ہذا عمم اصحابنا الحکم فقالوا لا تخرج المعتدۃ عن طلاق او موت الا لضرورۃ لان المطلقۃ تخرج للضروری بحسبھا لیلا کان او نھارا۔
والمعتدۃ عن موت کذلک فاین الفرق فالظاہر من کلامھم جواز خروج المعتدۃ عن وفاۃ نھارا ولو کانت قادرۃ علی النفقۃ و لھذا استدل اصحابنا بحدیث فریعۃ بنت ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ ان زوجھا لما قتل أتت النبیا فاستاذنتہ بالانتقال الی بنی خدرۃ فقال لھا امکثی فی بیتک حتی یبلغ الکتاب اجلہ فدل علی حکمین اباحۃ الخروج بالنھار و حرمۃ الانتقال حیث لم ینکر خروجھا و منعھا من الانتقال ۔
(البحرالرائق ص ۱۵۳ج ۴)
ضرورت نفقہ کے علاوہ نکلنے میں اختلاف ہے (صاحب بحر جواز کے قائل ہیں ) ۔ اس لیے احتیاط اس میں ہے کہ صورت مذکورہ میں مکان سے باہر نہ جائے لیکن جب دوا وغیرہ کا انتظام کوئی اور نہ کرے اور دوا نہ کرنے سے مرض بڑھنے کا اندیشہ ہو یا خود اس عورت کو بدون علاج کے پریشانی ہو تو دوسرے (یعنی صاحب بحر کے) قول پر عمل کی گنجائش ہے ۔
وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالی علیہ وسلم
مفتی محمدرضا مرکزی
کتبـــــــــــــــــــــــــــــــــــہ
خادم التدریس والافتا
الجامعۃ القادریہ نجم العلوم مالیگاؤں