تعوذ وتسمیہ کی تفسیر از تفسیر ناموس رسالت
اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
استعاذۃ کامعنی
استعاذہ کامعنی ہے کہ’’ میں سرکش نافرمان شیطان کے شر سے رب تعالی کی بارگاہ میں اس بات سے پناہ اورحفاظت چاہتاہوں کہ وہ میرے دین یادنیاکو نقصان پہنچائے یامجھے رب تعالی کے احکامات پر عمل کرنے سے روکے اورمیں شیطان کے وسوسوں اورشرارتوں سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتاہوں‘‘کیونکہ اللہ تعالی ہی شیطان کو انسان سے دوررکھ سکتاہے ۔
امام محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں
فَإِذَا أَخَذْتَ فِی قِرَاء َتِہِ فَاسْتَعِذْ بِاللَّہِ مِنْ أَنْ یَعْرِضَ لَکَ الشَّیْطَانُ فَیَصُدَّکَ عن تَدَبُّرِہِ وَالْعَمَلِ بِمَا فِیہِ۔
ترجمہ :پس جب تواس کی قراء ت شروع کرے تواللہ تعالی سے اس بارے میں پناہ طلب کر کہ شیطان تیرے لئے ظاہرہواوروہ تجھے قرآن کریم میں غوروفکرکرنے سے اورجو کچھ اس قرآن میں احکامات ہیں ان پر عمل کرنے سے روکے۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد القرطبی (۱۰:۱۷۵)
اس کلام سے واضح ہوگیاکہ شیطان انسان کو قرآن کریم کے پڑھنے سے منع کرتاہے اورقرآن کریم پر عمل کرنے سے روکتاہے اسی لئے حکم دیاگیاہے کہ قرآن کریم کی تلاوت سے پہلے اللہ تعالی کی پناہ میں آجائو تاکہ شیطان تم کو قرآن کریم کی تلاوت سے یااس کے احکامات پر عمل کرنے سے نہ روک سکے ۔
اوریہ بھی معلوم ہواکہ شیطان انسان کو پھسلاتاہے اورقرآن کریم کے مضامین اوراس میں موجود احکامات کے متعلق اس کے نظریات بدل دیتاہے اوریہ انسان اس کے دھوکے میں آکر احکامات قرآنیہ کے متعلق اپنے نظریات بدل لیتاہے۔اس سے وہ لوگ عبرت حاصل کریں جو یہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم کی تعلیمات توبہت پرانی ہیں ہم کو نئی روشنی کی ضرورت ہے۔
شیطان نے لوگوں کو عجیب منافق بنادیاہے کہ جب ان کو یہ کہاجائے کہ آپ اپنے بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم دلوائو توکہتے ہیں کہ ہم نے اپنے بچوں کو قرآن کریم پڑھواکر بھوکامرواناہے تودوسری طرف یہی لوگ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ انگریز قرآن کریم پڑھ کر ترقی کرگیااورہم ہیں کہ پیچھے رہ گئے ہیں ۔ اگرانگریز قرآن کریم کو پڑھ کر ترقی کرگیاہے تو تم وہ ترقی کیوں نہیں کرناچاہتے؟ اس کامطلب یہ ہے کہ اس نے خو د قرآن کریم پر عمل کیاہواہے اورتم کو قرآن کریم پر عمل نہیں کرنے دیتا،فیاللعجب۔یہ سب شیطانی بہکاوے اوراسی کے وساوس ہیں جو اپنے دوستوں کے دلوں میں ڈالتارہتاہے ۔
آپ ملاحظہ فرماسکتے ہیں کہ شیطان نے ان کو کس طرح بہکایاہے کہ اب یہ لوگ قرآن کریم کی طرف آتے ہوئے بھی کتراتے ہیں، سارے ملک میں دیکھ لیں قرآن کریم کے دیئے ہوئے احکامات کو بھلاچکے ہیں اوراب تو دینی مدارس جو اپنی مددآپ کے تحت کام کررہے تھے ان کو بھی بندکرنے کے چکرمیں ہیں۔ اللہ تعالی شیطان اورشیطان کے غلاموں سے دین اوراہل دین کو محفوظ فرمائے۔
شیطان کیاوسوسے ڈال سکتاہے ؟
اللہ تعالی نے یہ ہدایت کی کہ جب تم قرآن کریم کی تلاوت کرنے لگویاکسی کو پڑھ کرسنانے لگو تو تعوذ پڑھو اوراللہ تعالی کی پناہ میں آجائو کیونکہ شیطان کاکام ہی یہی ہے کہ وہ انسان کو راہ راست سے ہٹادے ۔پہلے توقرآن کریم پڑھنے والے کے دل میں عجیب عجیب وسوسے پیداکرتاہے کہ تم اس کتاب کی تلاوت کررہے ہوپہلے اس بات کایقین کرلو کہ یہ واقعی منزل من اللہ ہے اوریہ واقعی رسول اللہ ﷺپر نازل ہوئی ہے اور اس کی کیاضمانت کہ یہ کتاب واقعی اسی طرح محفوظ رہی جیسے نازل ہوئی تھی ، اسے دنیامیں آئے ہوئے اتناعرصہ بیت گیایہ کیسے کہاجاسکتاہے کہ اس میں دیاہوانظام زندگی آج بھی قابل عمل ہے ۔ خود مسلمانوں کاموجودہ رویہ اس کتاب کے بارے میں سب سے بڑاسوال ہے ، پوری امت مسلمہ میں کہیں بھی اس کانظام نافذ نہیں ہے ۔
{بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ }
بسم اللہ شریف کے نزول کے وقت شیطانوں پر شعلوں کی بارش
عَنْ جَابِرٍ قَالَ:لَمَّا نَزَلَتْ بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ:ہَرَبَ الْغَیْمُ إِلَی الْمَشْرِقِ، وَسَکَنَتِ الرِّیحُ، وَہَاجَ الْبَحْرُ، وَأَصْغَتِ الْبَہَائِمُ بِآذَانِہَا، وَرُجِمَتِ الشَّیَاطِینُ مِنَ السَّمَاء ِ، وَحَلَفَ اللَّہُ بِعِزَّتِہِ وَجَلَالِہِ أَنْ لَا تُسَمَّی عَلَی شَیْء ٍ إِلَّا بَارَکَ فِیہِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناجابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب یہ آیت { بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیم}اتری تو بادل مشرق کی طرف چھٹ گئے ہوائیں ساکن ہوگئیں ، سمندر ٹھہرگیا، جانوروں نے کان لگالئے، شیاطین پر شعلے گرے اوراللہ تعالی نے قسم یاد فرمائی کہ جس چیز پر میرانام لیاجائے گااس میں ضروربرکت ہوگی ۔
(الکشف والبیان عن تفسیر القرآن:أحمد بن محمد بن إبراہیم الثعلبی، أبو إسحاق (۱:۹۱)
شیطان کو ذلیل کرنے کاشاندار نسخہ
عَنْ أَبِی تَمِیمَۃَ الْہُجَیْمِیِّ، عَمَّنْ کَانَ رَدِیفَ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،قَالَ:کُنْتُ رَدِیفَہُ عَلَی حِمَارٍفَعَثَرَ الْحِمَارُ، فَقُلْتُ:تَعِسَ الشَّیْطَانُ، فَقَالَ لِی النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:ا تَقُلْ:تَعِسَ الشَّیْطَانُ، فَإِنَّکَ إِذَا قُلْتَ:تَعِسَ الشَّیْطَانُ، تَعَاظَمَ الشَّیْطَانُ فِی نَفْسِہِ، وَقَالَ:صَرَعْتُہُ بِقُوَّتِی، فَإِذَا قُلْتَ:بِسْمِ اللہِ، تَصَاغَرَتْ إِلَیْہِ نَفْسُہُ حَتَّی یَکُونَ أَصْغَرَ مِنْ ذُبَابٍ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوتمیمہ الجیہمی رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ ان صحابی رضی اللہ عنہ نے بیان کیاجو رسول اللہ ﷺکی سواری پر سوارتھے ، اچانک رسول اللہ ﷺکی سواری پھسلی توان صحابی رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ دیاکہ شیطان کاستیاناس ہو۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: اس طرح نہ کہو،اس سے شیطان پھولتاہے اورخیال کرتاہے کہ اس نے اپنی قوت سے گرایاہے ہاں بسم اللہ پڑھوکیونکہ اس سے وہ مکھی کی طرح ذلیل اورپست ہوجاتاہے ۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل (۳۴:۱۹۸)
اس حدیث پاک سے معلوم ہواکہ اللہ تعالی اوراس کے رسول ﷺکے دشمن کو ذلیل کرنے کاحکم ہے ۔
اللہ تعالی کے ذکر سے شیطان ذلیل ہوجاتاہے
حَدَّثَنَا الْمُثَنَّی بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْخُزَاعِیُّ، عَنْ عَمِّہِ أُمَیَّۃَ بْنِ مَخْشِیٍّ وَکَانَ مَنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ – قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَالِسًا وَرَجُلٌ یَأْکُلُ فَلَمْ یُسَمِّ حَتَّی لَمْ یَبْقَ مِنْ طَعَامِہِ إِلَّا لُقْمَۃٌ فَلَمَّ رَفَعَہَا إِلَی فِیہِ قَالَ:بِسْمِ اللَّہِ أَوَّلَہُ وَآخِرَہُ، فَضَحِکَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ: مَا زَالَ الشَّیْطَانُ یَأْکُلُ مَعَہُ، فَلَمَّا ذَکَرَ اسْمَ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ اسْتَقَاء َ مَا فِی بَطْنِہِ۔
ترجمہ:حضرت سیدناامیہ بن مخشی رضی اللہ عنہ جو رسول اللہ ﷺکے صحابی تھے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺتشریف فرماتھے اورایک شخص کھاناکھانے لگااس نے بسم اللہ نہیں پڑھی ، یہاں تک کہ جب کھانے کاایک لقمہ باقی رہ گیااوراس نے اسے اپنے منہ کی طرف بلندکیاتو اس نے کہا{بِسْمِ اللَّہِ أَوَّلَہُ وَآخِرَہُ}تورسول اللہ ﷺمسکرادیئے اورارشادفرمایا:شیطان مسلسل اس کے ساتھ کھاناکھارہاتھاجب اس نے اللہ تعالی کانام لیاتو شیطان نے اپنے پیٹ میں موجود کھاناقے کردیا۔
(سنن أبی داود:أبو داود سلیمان بن الأشعث بن إسحاق(۳:۳۴۷)
شیطان کالوگوں کے منہ سے لقمہ چھیننا
وَقد اتّفق لنا أَنہ زارنا ذَات یَوْم رجل من أَصْحَابنَا فَقَرَّبْنَا إِلَیْہِ شَیْئا، فَبینا یَأْکُل إِذا سَقَطت کسرۃ من یَدہ وتدہدہت فِی الأَرْض فَجعل یتبعہَا وَجعلت تتباعد عَنہُ حَتَّی تعجب الْحَاضِرُونَ بعض الْعجب وکابد ہُوَ فِی تتبعہا بعض الْجہد، ثمَّ إِنَّہ أَخذہَا فَأکلہَا فَلَمَّا کَانَ بعد أَیَّام تخبط الشَّیْطَان إنْسَانا وَتکلم علی لِسَانہ فَکَانَ فِیمَا تکلم أَنِّی مَرَرْت بفلان وَہُوَ یَأْکُل فَأَعْجَبَنِی ذَلِک الطَّعَام فَلم یطعمنی شَیْئا فخطفتہ من یَدہ فنازعنی حَتَّی أَخذہ منی۔
ترجمہ :حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ ایک بار میری ملاقات کو ایک دوست آیا، میں نے اس کے لئے کھاناپیش کیا، جب وہ کھانے لگاتو اس کے ہاتھ سے روٹی کاایک ٹکڑاچھوٹ کر خلاف عادت دورتک لڑھکتاہواچلاگیا، جتنے لوگ وہاں موجود تھے وہ دیکھ کر حیران وششدررہ گئے ۔ پھراگلے دن وہ ایک شخص کے سر پر آکر خبیث شیطان بولاکہ فلاں جگہ ہم نے فلاں شخص سے کل روٹی کاایک ٹکڑاچھیناتھامگر اس نے ہم سے لے ہی لیا، ہم کونہ دیا۔
(حجۃ اللہ البالغۃ:أحمد بن عبد الرحیم الشاہ ولی اللہ الدہلوی (۲:۲۸۸)
بسم اللہ شریف کے آداب اوربے ادبی کی سزا
دین اسلام کی معروف ضروریات و بدیہیات میں سے ہے کہ اللہ تعالی کے اسمائے مبارکہ کی اہانت نا جائز امر ہے اسی طرح اللہ تعالی کا کلام جوعزت والی کتاب میں مرقوم ہے کی توہین بھی نا جائز ہے، اسی طرح حضورتاجدارختم نبوتﷺکے اسم مبارک کی توہین بھی حرام ہے، اور اگر ان افعال میں سے کسی بھی فعل کو اہانت اور ذلت کے قصد سے کیا جائے تو اس عمل کا مرتکب مرتد اور اسلام سے خارج ہے۔
اب ہم کچھ روایات نقل کرتے ہیں جس سے اندازہ ہوجائے گاکہ ہماری شریعت مبارکہ میں اللہ تعالی کے کلام پاک کاکس قدر ادب ہے اوراس کی بے حرمتی کرنے پر کس قدر سزاہے۔
بسم اللہ شریف کی بے ادبی کرنے والالعنتی ہے
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الزبیر الْحَنْظَلِیِّ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَی کِتَابٍ عَلَی الْأَرْضِ فَقَالَ:لِفَتًی مَعَہُ:مَا ہَذَا؟ قَالَ:بِسْمِ اللَّہِ قَالَ:لَعَنَ اللَّہُ مَنْ فَعَلَ ہَذَا، وَلَا تَضَعُوا اسْمَ اللَّہِ إِلَّا فِی مَوْضِعِہِ۔
ترجمہ:حضرت سیدناعمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ رسول اللہ ﷺ زمین پر پڑی ایک کتاب کے پاس سے گزرے تو آپ ﷺنے اس کے پاس بیٹھے ہوئے ایک نوجوان کو کہا: یہ کیاہے ؟ تو اس نے عرض کی: یارسول اللہ ﷺ!بسم اللہ شریف ہے ۔تورسول اللہ ﷺنے فرمایا: جس نے ایساکیاہے اس پر لعنت ہو، بسم اللہ کو اس کے مقام پررکھاکرو۔
(المراسیل: أبو داود سلیمان بن الأشعث السَِّجِسْتانی (۱:۳۴۲)
دیوار پر اللہ تعالی کانام لکھنے کی وجہ سے تادیبی کاروائی
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الزبیر الْحَنْظَلِیِّ،قَالَ:فَرَأَیْتُ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ رَأَی ابْنًا لَہُ کَتَبَ ذِکْرَ اللَّہِ فِی الْحَائِطِ فَضَرَبَہُ۔
ترجمہ:حضرت سیدنامحمدبن الزبیر الحنظلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ میں نے حضرت سیدناعمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کو دیکھاکہ انہوں نے اپنے بیٹے کو دیوار پر اللہ تعالی کانام لکھتے ہوئے دیکھاتو اس کو مارا۔
(المراسیل: أبو داود سلیمان بن الأشعث السَِّجِسْتانی (۱:۳۴۲)
کیونکہ باہر گلی محلے کی دیوار پر اللہ تعالی کانام لکھنے سے بے ادبی ہوتی ہے اس لئے آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کو تادیبا ًمارا۔
بسم اللہ شریف درست نہ لکھنے کی سزا
وَأخرج أبوعبید عَن عمرَان بن عون أَن عمر بن عبد الْعَزِیز ضرب کَاتبا کتب الْمِیم قبل السِّین فَقیل لَہُ: فیمَ ضربک أَمِیر الْمُؤمنِینَ فَقَالَ فِی سین۔
ترجمہ:حضرت سیدناعمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے اپنے کاتب کو ماراجس نے بسم اللہ شریف کی سین سے پہلے میم کولکھ دیا، جب کاتب سے پوچھاگیاکہ تجھے کس وجہ سے مار پڑی ؟ تو اس نے جواب دیاکہ میں نے بسم اللہ شریف لکھتے ہوئے میم کو سین سے پہلے لکھ دیاتھا۔
(الدر المنثور:عبد الرحمن بن أبی بکر، جلال الدین السیوطی (ا:۲۸)
اپناکاتب معذول کردیا
أَخْبَرَنَا سَعِیدُ بْنُ عَامِرٍ عَنْ جُوَیْرِیَۃَ بْنِ أَسْمَاء ٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ عَزَلَ کَاتِبًا لَہُ فِی ہَذَا.کَتَبَ بِسْمِ وَلَمْ یَجْعَلِ السِّینَ.
ترجمہ :حضرت سیدتناجویریہ بنت اسماء رضی اللہ عنہاروایت فرماتی ہیں کہ حضرت سیدناعمربن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے اپنے کاتب کواس بات پر معذول کردیاتھاکہ اس نے بسم اللہ شریف لکھتے ہوئے سین نہیں لکھاتھا(بم لکھ دیاتھا)۔
(الطبقات الکبری:أبو عبد اللہ محمد بن سعد البغدادی المعروف بابن سعد (۵:۲۸۴)
بسم اللہ شریف کاادب کرنے والے کااجر
عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَآلِہِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْ کِتَابٍ یَلْقَی بِمَضِیعَۃٍ مِنَ الْأَرْضِ إِلَّا بَعَثَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَیْہِ مَلَائِکَۃً بِأَجْنِحَتِہِمْ وَیُقَدِّسُونَہُ حَتَّی یَبْعَثَ اللَّہُ إِلَیْہِ وَلِیًّا مِنْ أَوْلِیَائِہِ ,فَیَرْفَعَہُ مِنَ الْأَرْضِ یَحُفُّونَہُ، وَمَنْ رَفَعَ کِتَابًا مِنَ الْأَرْضِ فِیہِ اسْمٌ مِنْ أَسْمَاء ِ اللَّہِ تَعَالَی رَفَعَ اللَّہُ اسْمَہُ فِی عِلِّیِّینَ وَخَفَّفَ عَنْ وَالِدَیْہِ الْعَذَابَ وَإِنْ کَانَا کَافِرِینَ۔
ترجمہ:حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: کسی ایسی نامناسب جگہ پر کوئی کتاب پڑی ہوتواللہ تعالی اپنے ملائکہ کرام کو بھیجتاہے وہ اپنے پروں کے ساتھ اسے ڈھانپ لیتے ہیں اوراس کی حفاظت کرتے ہیں یہاں تک کہ اللہ تعالی اپنے اولیاء کرام میں سے کسی ولی کو بھیجتاہے جو اسے اٹھاتاہے ، پھرفرشتے اسے اپنے رحمت کے پروں کے ساتھ ڈھانپ لیتے ہیں اورجو کوئی زمین سے ایساکاغذ اٹھاتاہے جس میں اللہ تعالی کے اسماء کریمہ میں سے کوئی اسم شریف لکھاہواہوتو اللہ تعالی اس کانام علیین میں لکھ دیتاہے اوراس کے والدین کے عذاب میں تخفیف فرمادیتاہے اگرچہ وہ کافرہی کیوں نہ ہوں۔
(المعجم الصغیر:سلیمان بن أحمد أبو القاسم الطبرانی (ا:۲۴۷)
جو بسم اللہ شریف کاادب کرے
عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مَنْ رَفَعَ قِرْطَاسًا مِنَ الأَرْضِ فِیہِ بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ إِجْلالا، زَادَ الرَّزَّازُ:لِلَّہِ، ثُمَّ اتَّفَقَا:أَنْ یُدَاسَ، کُتِبَ عِنْدَ اللَّہِ مِنَ الصِّدِّیقِینَ، وَخُفِّفَ عَنْ وَالِدَیْہِ، وَإِنْ کَانَا کَافِرَیْنِ، وَقَالَ الرَّزَّازُ: مُشْرِکَیْنِ۔
ترجمہ:حضرت سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جس نے زمین سے ایساکاغذ اٹھایاجس میں{ {بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِِ}لکھاہواتھا، اس کی تعظیم کے لئے تاکہ وہ روندانہ جائے تووہ شخص اللہ تعالی کے ہاں صدیقین میں لکھاجائے گااوراس کے والدین کے عذاب میں تخفیف کی جائے گی اگرچہ وہ کافرہی کیوں نہ ہوں اورامام الرزاز نے کہاکہ اگرچہ وہ مشرک ہی کیوں نہ ہوں۔
(تالی تلخیص المتشابہ:أبو بکر أحمد بن علی بن ثابت بن أحمد بن مہدی الخطیب البغدادی (۲:۴۵۸)
ہر معظم نام کایہی حکم ہے
ومثلہ فی الحکم کل اسم معظم.
ترجمہ:امام اسماعیل بن محمدالعجلونی المتوفی ۱۱۶۲ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ہر عظمت والانام اسی کے حکم میںہے ۔
(کشف الخفاء:إسماعیل بن محمد العجلونی الجراحی (۲:۲۵۸)
اسماء مبارکہ کی توہین ۔۔۔۔
التہاون باسماء اللہ تعالی کالتہاون ببذاتہ ۔
ترجمہ: حضرت سیدناامام احمدبن محمدالصاوی المتوفی :۱۲۴۱ھ)رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ اللہ تعالی کے اسماء مبارکہ کی توہین اس طرح ہے جیسے اس کی ذات کی توہین ۔
(حاشیۃ الصاوی علی تفسیر الجلالین لامام احمدبن محمدالصاوی (۴:۱۴۴)
مقدس ورق نہ اٹھانے والاکفرکامرتکب ہے
من وجد اسم اللہ تعالی مکتوباًفی ورقۃ موضوعاً فی قذر وترکہ فقدکفر۔
ترجمہ :جس شخص نے کاغذ پر اللہ تعالی کانام لکھاہواگندگی پر پڑاہواپایااوراس کو چھوڑ دیایعنی اٹھایانہیں تو یقینااس نے کفرکیا۔
(حاشیۃ الصاوی علی تفسیر الجلالین لامام احمدبن محمدالصاوی (۴:۱۴۴)
بسم اللہ شریف کے ادب کااجر
مُحَمَّدَ بْنَ الصَّلْتِ، یَقُولُ:سَمِعْتُ بِشْرَ بْنَ الْحَارِثِ، وَسُئِلَ مَا کَانَ بَدْء ُ أَمْرِکَ لِأَنَّ اسْمَکَ بَیْنَ النَّاسِ کَأَنَّہُ اسْمُ نَبِیٍّ ,قَالَ:ہَذَا مِنْ فَضْلِ اللہِ وَمَا أَقُولُ لَکُمْ کُنْتُ رَجُلًا عَیَّارًا صَاحِبَ عَصَبَۃٍ فَجُزْتُ یَوْمًا فَإِذَا أَنَا بِقِرْطَاسٍ فِی الطَّرِیقِ فَرَفَعْتُہُ فَإِذَا فِیہِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ. فَمَسَحَتْہُ وَجَعَلْتُہُ فِی جَیْبِی وَکَانَ عِنْدِی دِرْہَمَانِ مَا کُنْتُ أَمْلِکُ غَیْرَہُمَا فَذَہَبْتُ إِلَی الْعَطَّارِینَ فَاشْتَرَیْتُ بِہِمَا غَالِیَۃً وَمَسَحْتُہُ فِی الْقِرْطَاسِ فَنِمْتُ تِلْکَ اللَّیْلَۃَ فَرَأَیْتُ فِیَ الْمَنَامِ کَأَنَّ قَائِلًا یَقُولُ لِی:یَا بِشْرُ بْنَ الْحَارِثِ رَفَعْتَ اسْمَنَا عَنِ الطَّرِیقِ، وَطَیَّبْتَہُ، لَأُطَیِّبَنَّ اسْمَکَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃَ ,ثُمَّ کَانَ مَا کَانَ ۔
ترجمہ :حضرت سیدنامحمدبن صلت رحمہ اللہ تعالی کے سلسلہ سند سے مروی ہے کہ حضرت سیدنابشربن حارث رحمہ اللہ تعالی سے سوال کیاگیاکہ دینداری کی طرف آپ کیسے مائل ہوگئے ؟ کیونکہ آپ کانام لوگوں میں ایسے معروف ہے جیسے کسی نبی (علیہ السلام) کانام ، حضرت سیدنابشررحمہ اللہ تعالی فرمانے لگے کہ یہ محض اللہ تعالی کافضل وکرم ہے ، بہرحال میں تم سے اتناضرورکہوں گاکہ میں ایک عیارقسم کاآدمی تھا، میرے پاس ڈرائودھمکائوکے لئے طاقت بھی تھی ، چنانچہ ایک مرتبہ میں کہیں جارہاتھاکہ اچانک راستے میں پڑے ہوئے ایک کاغذ پر میری نظرپڑی ، میں نے فوراً اس کاغذ کو اٹھالیا، کیادیکھتاہوں کہ اس پر{ بسم اللہ الرحمن الرحیم} لکھاہواتھا، میں نے صاف کرکے اس کو جیب میں ڈال لیا، اس وقت میرے پاس دودرہم تھے ، میں عطرفروش کے پاس گیااوردودرہم کی غالیہ نامی جو بہت مہنگی خوشبوتھی خریدی لی اورکاغذ کو معطرکرکے اپنے پاس رکھ لیا، رات میں سوگیاتوکیادیکھتاہوں کہ ایک کہنے والاکہہ رہاہے اے بشربن حارث ! تم نے ہمارانام راستے سے اٹھایااوراسے خوشبوسے معطرکیا،میں بھی دنیاوآخرت میں تیرے نام کو معطروروشن کروں گا، پھروہ کچھ ہواجو تم دیکھ رہے ہو۔
(حلیۃ الأولیاء وطبقات الأصفیاء :أبو نعیم أحمد بن عبد اللہ بن أحمد بن إسحاق بن موسی بن مہران الأصبہانی (۸:۳۳۶)
شرعی مسئلہ
قرآن کریم کے اوراق اگر اتنے بوسیدہ ہوگئے ہوں کہ بوسیدگی کی وجہ سے تلاوت کے قابل نہ ہوں ان کو کسی پاک کپڑے میں لپیٹ کر کسی محفوظ جگہ میں جہاں لوگوں کی آمدورفت نہ ہو دفن کردیا جائے اور بہتر یہ ہے کہ بوسیدہ اوراق کو دفنانے کے لیے بغلی قبر بنائی جائے تاکہ مقدّس اوراق پر مٹی نہ پڑے اگر صندوقی قبر بنائی گئی تو اِن اوراق پر مٹی پڑے گی جس میں ایک گونہ تحقیر ہے ہاں!اگر اس پر تختوں وغیرہ کے ذریعے چھت بنادی گئی تو پھر صندوقی قبر بنانے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے اور یہ صورت بھی اختیار کی جاسکتی ہے کہ اِن اوراق کے ساتھ وزنی پتھر باندھ کر سمندر میں احتیاط سے ڈالا جائے تاکہ وہ تہہ میں چلے جائیں۔
اولیاء اکرام علیہم الرحمہ کا طریقہ ادب یہ تھاکہ اگر۱۰۰ اونٹ قطار باندھے جا رہے ہوں اور آخری اونٹ پر قرآن مجید رکھا ہوا ہو تو بغیر وضو کے پہلے اونٹ کی رسی نہیں پکڑتے تھے ۔