ترک ڈرامہ’ارطغرل غازی ، دیکھنا کیسا ہے ؟

ترک ڈرامہ’ارطغرل غازی ، دیکھنا کیسا ہے ؟

کچھ لوگ اسے جائز ٹھہرا کر دیکھنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں تو فلم کوئی بھی ہو دیکھنا ہرگز جائز نہیں ۔ مگر اس کے متعلق متعدد جگہوں سے لوگ فون و واٹس ایپ کے ذریعہ اس کے جواز و عدمِ جواز کے متعلق مسئلہ پوچھ رہے ہیں ۔ اس لئے اس کے متعلق خاص کر حکم شرع بیان کرنا ضروری ہوا۔تاکہ لوگوں کے شکوک و شبہات اور مغالطے رفع ہوں اور ان کی صحیح رہنمائی ہوسکے، کچھ نام نہاد مولوی جدت پسند خود ساختہ مفکرین اس کے بارے میں لمبے چوڑے مضامین لکھ کر اسے دیکھنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ کسی حرام و ناجائز کام کو کرنا جرم و خطا ، معاصیت و گناہ تو ہے ہی، پر اس کے لئے رخصت اور جواز کے حیلہ تلاش کرنا مزید اسے جائز ٹھہرانا یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ حرام و گناہ ہے اور بڑھ کر معصیت و گناہ ہے ۔
ایک نرا جاہل شخص جو علم و ادب سے بالکل کورا ہےاور فلم وغیرہ دیکھتا ہے وہ بھی جانتا ہے کہ فلم بینی ناجائز اور گناہ ہے فلم خواہ کوئی بھی ہو ۔
آج کل لوگ طہارت و ناپاکی ، نماز، روزہ، حج و زکوٰۃ وغیرہ جیسے ضروری مسائل سے متعلق کم مگر اس طرح فلمی ڈراموں وغیرہ جیسے مسائل کے متعلق مسئلہ زیادہ پوچھ رہے ہیں ۔
اس سے متعلق پوچھے گئے سوالات سے چند ایک ۔۔۔۔۔ پیش ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الاستفتا
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
آپ کی بارگاہ میں عرض یہ ہے کہ جو ارطغرل غازی (ترکی) ڈرامہ جسے لوگ بہت پسند کر رہے ہیں اور کئی زبانوں میں ڈبنگ کیا جا رہا ہے اسکا دیکھنا کیسا ہے؟ کئی عالم اسے لوگوں کو دیکھنے کی ترغیب بھی دے رہے ہیں۔

سائل: ترمذی مشن کالپی شریف

الجواب بعون الملک الوہاب

شرعاً قطعاً جائز نہیں بلکہ سخت ناجائز و حرام ، جرمِ کبیر، گناہِ عظیم اور مستوجب غضب قہار و جبار ہے ۔ ٹی وی ، مووی ، سیریل، فلم، ڈرامے وغیرہ یہ سب اسلامی نقطۂ نظر سے قطعاً درست نہیں۔ کسی برے اور ناجائز کام کو اچھا نام دے دینے سے اسلام میں وہ اچھا اور جائز نہیں ہوجاتا ۔ ‘ارطغرل، نام سے منسوب ترکی ڈرامہ جسے اسلامی تاریخی ڈرامہ نام بھی دیا گیا ہے یہ ، خواہ کوئی مکی یا مدنی چینل کے نام سے ہوں وہ، سب کا ایک ہی حکم ہے ۔ کیوں کہ بکس اور اسکرین پر جو انسانی تصویر نظر آتی وہ تصویر کے حکم میں ہے اور بالقصد تصویر دیکھنا دکھانا اگرچہ کسی ولی اللہ ہی کی کیوں نہ ہو اسی طرح ناجائز و حرام ہے جس طرح ذی روح کی تصویر بنوانا بنانا اور اعزازاً اپنے پاس رکھنا حرام ہے۔
حدیث شریف میں ہے:

” ان اشد الناس عذابا یوم القیامۃ المصورون،،
ا

ور حدیث میں ہے: " ان اشد الناس عذابا یوم القیامۃ الذین یشتھون بخلق اللہ،، بیشک نہایت سخت عذاب روز قیامت ان تصویر بنانے والوں پر ہوگا ،جو خدائے تعالیٰ کے بنائے ہوئے کی نقل کرتے ہیں ،،۔ ( مسلم شریف، ج2، ص200)

اور اعلیٰ حضرت عظیم البرکت سیدی امام احمد رضا خان علیہ الرحمة والرضوان تحریر فرماتے ہیں:
"حضور صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے ذی روح کی تصویر بنانا بنوانا ، اعزازاً اپنے پاس رکھنا سب حرام فرمایا ، اور اس پر سخت وعیدیں ارشاد کیں اور ان کے دور کرنے اور مٹانے کا حکم دیا، احادیث اس بارے میں حد تواتر پر ہیں،،۔
پھر بعد چند سطور رقم طراز ہیں :” حضرتِ عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم فرماتے ہیں : کل مصور فی النار یجعل اللہ لہ بکل صورة صورھا نفسا فتعذبہ فی جھنم، ہر مصور جہنم میں ہے اللہ تعالی ہر تصویر کے بدلے جو اس نے بنائی تھی، ایک مخلوق پیدا کرے گا کہ وہ جہنم میں اسے عذاب کرے گی ،، (فتاویٰ رضویہ شریف، ج9، ص143۔ نصفِ اول)

اور حضور شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں :
” گھر میں ٹی وی رکھنا حرام اور اسے دیکھنا دکھانا سب حرام کہ بکس پر جو انسانی تصویر نظر آتی ہے تصویر ہے اور بالقصد تصویر کو دیکھنا بھی حرام اگرچہ کسی اللہ کے ولی کی ہو، اس سے ہٹ کر ٹی وی میں مخرب الاخلاق سین بھی دکھائے جاتے ہیں ، مثلاً عورتوں کا گانا، ناچنا، تھرکنا بلکہ فلمی سین میں بوس و کنار تک ہوتا ہے ، ان مناظر کا بچوں کے اخلاق پر کیا اثر پڑے گا اور یہ کتنی بڑی بے حیائی ہے کہ ماں و باپ بچوں کے ساتھ بیٹھ کر یہ سب دیکھیں ٹی وی اور فلم دونوں کا خریدنا ہی ناجائز ہےکہ خریدنے میں اعانت علی الاثم ہے اور دیکھنا بھی حرام ہے ، تصویر کا دیکھنا حرام جو لوگ اسے جائز کہتے ہیں انہیں سمجھایا جائے، مان جائیں فبھا ورنہ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے (اور ان سے دور رہا جائے ) اس زمانے میں اس سے زیادہ اور کیا کیا جاسکتاہے ،، ۔( ماہنامہ اشرفیہ، شمارہ دسمبر 1994ء)

واللہ تعالیٰ و رسولہ الاعلیٰ اعلم و اتم بالصواب

یہ ترکی فلمی ڈرامہ’ارطغرل، کے متعلق شرعی حکم تھا۔
علاوہ ازیں اس میں موجود مفاسد اور قباحتوں سے بھی چشم پوشی نہیں کی جاسکتی ، اطلاعات کے مطابق ایک نہیں کئی ایک اس میں قباحت واضح طور پر موجود ہیں جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
اول- اس کے تمام واقعات غیر معتبر اور غیر مصدق ہیں۔
2- سچ اور جھوٹ کی آمیزش
3- عمداً جھوٹ شامل کرنا۔ جس پر شاھد ڈرامہ کے کار کن کا بیان ہے۔
4- اختلاط مرد و زن
5- عورتوں کی شمولیت ہی قبیح۔
6- مزید برآں عورتوں کا تھرکنا اداؤں سے چلنا
7- عشق و محبت کے داستان
8- موسیقی میوزک وغیرہ

افسوس :- اس قسم کے ڈراموں کو مگر آج تبلیغِ دین ، اصلاح اور بیداری کا نام دیا جارہا ہے ۔
جبکہ صحیح معنوں میں اس سے تبلیغ اور اصلاح تو بہت دور اصلاح کا نام تک نہیں پایا جاتا ہے ۔
تھوڑا بہت جوش و خروش اور ہمت و جزبہ جو بیدار ہوتا ہے وہ بس وقتی اور لمحاتی ہوتا ہے ، ان ڈراموں اور داستانوں سے پیدا ہونے والے جزبات کی عمر پانی کے بلبلے سے زیادہ نہیں ہوتی۔ اس کے مقابل میں کتابی اثر دیرپا ہوتاہے اور تاریخ کی معتبر کتابیں ہی حقیقی اثر پیدا کر سکتی ہیں ، تاریخ کا شوق رکھنے والوں کے لئے مستند تاریخی کتب ہی قلب کو تسکین دے سکتی ہیں۔

معلوم ہونا چاہیئے کہ ماضی میں متعدد اسلامی ممالک اور امریکہ میں بھی اس قسم کی نام نہاد اصلاحی و تبلیغی کوششیں کی گئیں ،اور انبیاء علیھم الصلاۃ و السلام اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت و سوانح اور ان کی حیات پر کئی فلمیں اور ڈرامے بنائے گئے ، جن ” عیسیٰ مسیح ،، ۔ دس پیغام ‘الرسالۃ ، وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ لیکن یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ ایسی فلمیں غیر مسلموں بلکہ مسلموں پر بھی کوئی مثبت و دیرپا اثر ڈالنے میں ناکام رہیں، بالفرض اگر ان فلموں کا اثر ہو رہا ہو تو تب بھی معصیت کے اس مجموعہ کی گنجائش بالکل نہیں ہو سکتی ۔ پھر بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اس طرح کی فلموں میں جو کردار اسکرین پر دکھائے جائیں گے ناظرین کی نظروں میں اس شخصیت کی وہی تصویر بن جاتی ہے ، پھر جب اس شخصیت کا ذکر ہوگا ، ناظرین کے ذہنوں میں اسی اداکار کی تصویر مرتسم ہو کر سامنے آئے گی ۔ مثلاً کسی ڈرامہ میں حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کا کردار بتایا گیا ،اس کردار کو ادا کرنے والے کی شکل ناظرین کے ذہنوں میں بیٹھ جائے گی، پھر جب بھی حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کا تذکرہ ہوگا، اسی اداکار کی شکل ذہن میں آجائے گی، جبکہ ہو سکتاہے کہ وہ اداکار مسلمان ہی نہ ہو ، یا مسلمان تو ہو لیکن فاسق و فاجر ہو ، اداکار خواہ کچھ بھی ہو ، لیکن صحابۂ کرام کے مرتبہ کا تو کبھی ہرگز نہیں ہو سکتا ۔لہذا اسلام کی ایسی عظیم اور مقدس ہستیوں کے ذکر کے وقت اداکاروں کی شکل و صورت ذہن میں آنا بذاتِ خود ایک بڑی قباحت ہے۔

لھذا اتنی ساری قباحتیں جس چیز میں موجود ہوں وہ بلاشبہ ناجائز عمل ٹھہرے گا، ترکی صدر کا اس کی حمایت یا پاکستانی وزیر عمران کا اس کے متعلق اپنے بیان میں تعریف کرنا اور یکم ماہِ رمضان سے پاکستانی سرکاری نیوز میں اسے نشر کرنا وغیرہ یہ سب کوئی شرعی دلیل نہیں ہیں ۔ ایسے ڈراموں کام بنانا، اس کا دیکھنا اور اس کے دیکھنے کی ترغیب دینا شرعاً ناجائز ہے، نیز اس پر مال لگانا بھی تعاون علی المعصیت اور سخت گناہ کی بات ہے ۔ مسلمانوں کو اس سے مکمل اجتناب و احتراز چاہیئے۔

کتبہ✍ العبد العاصی محمد امیر حسن امجدی رضوی
خادم الافتا و التدریس الجامعة الصابریہ الرضویہ پریم نگر نگرہ جھانسی یوپی

Leave a Reply