عورت کو دھات کے بنے زیورات اور آرٹیفیشیل(مصنوعی) زیورات پہننا کیسا ہے؟

عورت کو دھات کے بنے زیورات اور آرٹیفیشیل(مصنوعی) زیورات پہننا کیسا ہے؟

السلام عليكم ورحمۃ اللہ برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مندرجہ ذیل مسئلوں میں

1) کہ عورتوں کو زمانہ میں حال میں سونے چاندی کے علاوہ دوسری دھات کے زیورات مثلاً انگوٹھی وغیرہ پہننا کیسا؟*

2) اور اسی طرح ایسے زیورات جس میں سونا یا چاندی مکس ہو مثلاً اندر دوسری دھات ہو اور باہر سونے چاندی کی پالس ہو ایسے زیورات پہننا کیسا؟

3) کیا عورتیں آرٹیفیشل (مصنوعی) بالیاں اور انگوٹھیاں پہن کر نماز پڑھ سکتی ہیں؟

المستفتی___ محمد مقیم علیمی

الجواب: (١)

عورتوں کے لیے دھات میں صرف سونے اور چاندی کے زیورات پہننے کی اجازت ہے۔ ان دونوں کے علاوہ عورت کو کسی اور دھات کے زیورات مثلاً انگوٹھی وغیرہ پہننا ناجائز ہے۔صدر الشریعہ علامہ مفتی محمد امجد علی رحمہ اللہ القوی تحریر فرماتے ہیں:

"انگوٹھی صرف چاندی ہی کی پہنی جاسکتی ہے، دوسری دھات کی انگوٹھی پہننا حرام ہے، مثلاً لوہا، پیتل، تانبا، جست وغیرہا۔

ان دھاتوں کی انگوٹھیاں مرد و عورت دونوں کے لیے ناجائز ہیں* ۔ فرق اتنا ہے کہ عورت سونا بھی پہن سکتی ہے اور مرد نہیں پہن سکتا۔

حدیث میں ہے کہ ایک شخص حضور (صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) کی خدمت میں پیتل کی انگوٹھی پہن کر حاضر ہوئے، فرمایا: کیا بات ہے کہ تم سے بُت کی بُو آتی ہے؟انھوں نے وہ انگوٹھی پھینک دی ، پھر دوسرے دن لوہے کی انگوٹھی پہن کر حاضر ہوئے، فرمایا: کیا بات ہے کہ تم پر جہنمیوں کا زیور دیکھتا ہوں ؟ انھوں نے اس کو بھی اتار دیا اور عرض کی، یارسول اﷲ ! ( صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم )کس چیز کی انگوٹھی بناؤں ؟ فرمایا کہ ’’چاندی کی اور اس کو ایک مثقال پورا نہ کرنا۔(بہار شریعت ١٦ ص ۴٢٩ نسخہ دعوت اسلامی ایپ )

اور رد المحتار میں ہے:

"وَفِي الْجَوْهَرَةِ *وَالتَّخَتُّمُ بِالْحَدِيدِ وَالصُّفْرِ وَالنُّحَاسِ وَالرَّصَاصِ مَكْرُوهٌ لِلرَّجُلِ وَالنِّسَاءِ*(رد المحتار)

اور امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں:

*”چاندی سونے کے سوا لوہے، پیتل، تانبے، رانگ کا زیور عورتوں کو بھی مباح نہیں، چہ جائیکہ مردوں کے لیے”* (فتاوی رضویہ نہم نصف اول ص١۴) واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔

*(٢)* کسی دھات کے زیور پر اگر سونے یا چاندی کا پانی چڑھادیا گیا ہو تو اس زیور کا پہننا بھی عورت کے لیے جائز نہ ہوگا، کیوں کہ یہاں سونا یا چاندی مغلوب ہے لہذا اس کی پالش کے اعتبار سے عورت کے لیے حکمِ جواز نہ ہوگا، بلکہ اس دھات کا اعتبار ہوگا جو غالب ہے۔ یہی وجہ ہے ایسے فتیلہ کا استعمال جائز ہے جس پر سونے یا چاندی کا پانی چڑھا دیا گیا ہو۔

امامِ اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں:

"(وہ اشیاء جن پر سونے یا چاندی کا پانی چڑھا ہو مرد) استعمال کرسکتا ہے، سونے یا چاندی کا پانی وجہِ ممانعت نہیں۔ *ہاں! اگر وہ شے فی نفسہ ممنوع ہو تو دوسری بات ہے، جیسے سونے کا ملمع کی ہوئی تانبے کی انگوٹھی”*

(فتاوی رضویہ ج ٩ ص١٣۴ باضافہ مابین الہلالین)

اور تحریر فرماتے ہیں:

"ہاں! اگر (فتیلہ پر) سونے کا ملمع یا چاندی کی قلعی کرلیں تو کچھ حرج نہیں۔ علامہ عینی فرماتے ہیں: *” اما التمویہ الذی لا یخلص فلا باس بالاجماع، لانہ ، فلا عبرة ببقائہ لونا”* (فتاوی رضویہ ج٩ ص٦) واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔

*(٣)* آرٹیفیشیل (مصنوعی) زیورات میں ظاہر یہ ہے کہ جس چیز کے اجزاء غالب ہوں اس کو دیکھتے ہوئے حکم ہونا چاہیے، (ولہ نظائر فی الفقہ۔وکما مر عن الفتاوی الرضویة عن العینی)

لہذا اگر اس میں سونے چاندی کے اجزاء غالب ہوں تو اس کا استعمال عورت کے لیے حلال ومباح ہوگا یوں ہی اگر اس میں کانچ کے اجزاء غالب ہوں تو بھی اس کا استعمال مباح ہوگا۔اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کانچ کی چوڑیاں پہننے کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں:

"جائز ہے لعدم المنع الشرعی، بلکہ شوہر کے لیے سنگار کی نیت سے مستحب، بلکہ شوہر یا ماں باپ کا حکم ہو تو واجب، لحرمة العقوق ولوجوب طاعة الزوج فی ما یرجع الی الزوجیة” (فتاوی رضویہ ج٩ ص٢٣۵)

اور اگر اس میں سونے چاندی کے علاوہ کسی اور دھات کے اجزاء غالب ہوں تو پہننے کی اجازت نہ ہوگی۔

اب اگر آرٹیفیشیل زیورات میں سونے، چاندی کے علاوہ کوئی اور دھات غالب ہو تو اس کو پہن کر نماز پڑھنے کی اجازت نہ ہوگی۔

ھذا ما ظہر لی والعلم بالحق عند اللہ عز وجل وھو سبحانہ وتعالی اعلم۔

*کتبہ* محمد نظام الدین قادری: خادم درس وافتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی، بستی۔

٨/شوال المکرم ١۴۴٢ھ//٢١/مئی ٢٠٢١ء

1 thought on “عورت کو دھات کے بنے زیورات اور آرٹیفیشیل(مصنوعی) زیورات پہننا کیسا ہے؟”

  1. ماشاءاللہ
    رب قدیر کی بارگاہ میں دعا ہے کہ
    اللہ تعالیٰ استاد گرامی وقار مفتی نظام الدین قادری علیمی صاحب کے علم میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔

    جواب دیں

Leave a Reply