عقیقہ کس عمر تک ہو سکتا ہے از مفتی محمد رضا مرکزی
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ (١) بچے کا عقیقہ کس عمر تک ہوسکتا ہے؟ (٢) اگر بچہ عقیقے کے وقت اس جگہ حاضر نہ ہو تو عقیقہ ہوجاتا ہے یا نہیں؟
سائل : محمد عرفان رضا احمد آباد
الجواب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
(١) ساتویں دن عقیقہ کرنا بہتر ہے، اگر ساتویں دن نہ ہوسکے تو زندگی میں جب چاہیں کرسکتے ہیں سنّت ادا ہوجائیگی، البتہ ساتویں دن کا لحاظ رکھا جائے تو بہتر ہے، اسکے یاد رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ جس دن بچہ پیدا ہوا، اُس دن سے ایک دن قبل ساتواں دن بنے گا۔ مثلاً بچہ جمعہ کو پیدا ہوا تو جمعرات ساتواں دن ہے اور ہفتے کو پیدا ہوا تو ساتواں دن جمعہ ہوگا، پہلی صورت میں جس جمعرات کو اور دوسری صورت میں جس جمعہ کو عقیقہ کریگا اس میں ساتویں کا حساب ضرور آئیگا ۔ ہاں البتہ فوت ہوجانے کے بعد عقیقہ نہیں ہو سکتا کہ عقیقہ شکرانہ ہے اور شکرانہ زندہ کیلئے ہی ہو سکتا ہے۔
(٢) عقیقہ کرتے وقت بچے کا عقیقے کی جگہ حاضر ہونا کوئی ضروری نہیں، بلکہ اگر بچہ دُنیا کے کسی بھی کونے میں ہو، اسکی طرف سے عقیقہ ہوجائے گا۔ اعلیٰ حضرت رَحمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیہ والدین کو اولاد کے حقوق گنواتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: ساتویں اور نہ ہو سکے تو چودہویں ورنہ اکیسویں دن عقیقہ کرے ۔
(مشعلة الارشاد فی حقوق الاولاد)
صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیہ تحریر فرماتے ہیں: ساتویں دن اُس کا نام رکھا جائے اور اُسکا سر مونڈا جائے اور سر مونڈنے کے وقت عقیقہ کیا جائے۔ اور بالوں کو وزن کر کے اُتنی چاندی یا سونا صدقہ کیا جائے۔
(بہارِ شریعت، جلد سوئم)
مزید فرماتے ہیں: عقیقہ کیلیے ساتواں دن بہتر ہے اور ساتویں دن نہ کرسکیں تو جب چاہیں کرسکتے ہیں سنت ادا ہو جائیگی۔ بعض نے یہ کہا کہ ساتویں یا چودہویں یا اکیسویں دن یعنی سات دن کا لحاظ رکھا جائے یہ بہتر ہے اور یاد نہ رہے تو یہ کرے کہ جس دن بچہ پیدا ہو اس دن کو یاد رکھیں اس سے ایک دن پہلے والا دن جب آئے وہ ساتواں ہوگا مثلاً جمعہ کو پیدا ہوا تو جمعرات ساتویں دن ہے اور سنیچر کو پیدا ہوا تو ساتویں دن جمعہ ہوگا پہلی صورت میں جس جمعرات کو اور دوسری صورت میں جس جمعہ کو عقیقہ کریگا اُس میں ساتویں کا حساب ضرور آئے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔(بہارِ شریعت، جلد سوئم)
مفتی امجد علی اعظمی رَحمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیہ سے سوال ہوا کہ مردہ کی جانب سے عقیقہ جائز ہے، یا نہیں؟ تو آپ نے جواباً تحریر فرمایا: مردہ کا عقیقہ نہیں ہوسکتا کہ عقیقہ دمِ شکر ہے اور یہ شکرانہ زندہ ہی کیلئے ہوسکتا ہے۔
(فتاویٰ امجدیہ، جلد دوم)
وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالی علیہ وسلم
مفتی محمدرضا مرکزی
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ
خادم التدریس والافتا
الجامعۃ القادریہ نجم العلوم مالیگاؤں