یہ کہنا کہ اپنی بیوی کو طلاق دینے جا رہا ہوں کا کیا حکم ہے
سوال : میں نے اپنے سسر کو یہ میسج کیا کہ میری وائف وفادار نہیں ہے،شکر، صبر، عزت کرنے والی نہیں ہے لہذا میں اپنی رضامندی اور ہوش و حواس میں کہہ رہا ہوں کہ میں اسے طلاق دینے جا رہا ہوں، آپ سب کو میرا پیغام ہے کہ جو کام آرام سے ہو جائے بنا کسی تکلیف کے وہ بہتر ہے، میں کرنے جا رہا ہوں، جو بیوی میری عزت کا خیال نہ رکھ سکتی ہو وہ وفادار نہیں ہو سکتی۔)
تو کیا اس طرح کا میسج کرنے سے طلاق ہوجاتی ہے جبکہ میرے سسر کہتے ہیں کہ ہم نے کسی مولوی سے پوچھا ہے، اس نے کہا ہے کہ طلاق ہوگئی ہے۔
کیا واقعی طلاق ہو گئی ہے؟
سائل : محمد بلال میانوالی
03025800172
بسمہ تعالیٰ
الجواب بعون الملک الوھّاب
اللھم ھدایۃ الحق و الصواب
صورتِ مسؤلہ (پوچھی گئی صورت) میں آپ نے مسیج پر جو الفاظ (کہ میں اپنی رضامندی اور ہوش و حواس میں کہہ رہا ہوں کہ میں اسے یعنی اپنی بیوی کو طلاق دینے جا رہا ہوں) اپنے سسر کو لکھ کر سینڈ کیے ہیں، ان الفاظ کے لکھ کر سینڈ کرنے سے آپ کی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ یہ الفاظ طلاق دینے کے ارادے اور طلاق کی دھمکی پر مشتمل ہیں اور جو الفاظ طلاق دینے کے ارادے اور طلاق کی دھمکی پر مشتمل ہوں، ان سے طلاق واقع نہیں ہوتی لیکن آپ کو دھمکی دینے کے لیے طلاق کے علاوہ کوئی اور مناسب الفاظ استعمال کرنے چاہیے تھے.
چنانچہ سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی تحریر فرماتے ہیں :
"وعدے سے طلاق نہیں ہوتی جواہر الاخلاطی میں "طلاق میکنم طلاق خلاف قولہ کنم لانہ یتمحض الاستقبال” طلاق میکنم (یعنی طلاق کرتا ہوں) حال ہونے کی وجہ سے طلاق ہے اس کے برخلاف طلاق کنم (طلاق کروں گا) کہا تو طلاق نہ ہوگی کیونکہ یہ محض استقبال ہے.”
(فتاوی رضویہ جلد 13 صفحہ 118 رضا فاؤنڈیشن لاہور)
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
اگر واقعی میں یہی الفاظ کہے تھے کہ طلاق دے دوں گا تو طلاق واقع نہ ہوئی کہ یہ طلاق دینا نہیں ہے بلکہ آئندہ طلاق دینے کا اظہار ہے اور محض اس ارادہ یا وعدہ پر طلاق نہیں ہوتی.
"لان ھذا اللفظ متعین لاستقبال ولا یقع بہ الطلاق کما فی الفتاویٰ الخیریۃ وغیرھا”
(فتاوی امجدیہ جلد دوم صفحہ 171 مکتبہ رضویہ آرام باغ روڈ کراچی)
پروفیسر مفتی منیب الرحمٰن صاحب مدظلہ العالی تحریر فرماتے ہیں :
"صورتِ مسؤلہ میں شوہر کا قول "میں تمہیں طلاق دے دوں گا” سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی کہ یہ مستقبل (یعنی آنے والے زمانے) میں طلاق دینے کے ارادے کا ظاہر ہے اور شرعاً ارادہ طلاق، طلاق نہیں ہے. طلاق انشاء میں سے ہے یعنی شوہر واضح طور پر کہے : میں تمہیں طلاق دیتا ہوں (بصیغہ حال) یا میں نے تمہیں طلاق دی (بصیغہ ماضی).”
(تفہیم المسائل جلد 6 صفحہ 377 ضیاء القرآن پبلیکیشنز)
اور جس مولوی صاحب نے کم علمی کے باعث مذکورہ الفاظ پر وقوعِ طلاق کا حکم دیا ہے، ایسا شخص سخت گنہگار ہے، اس پر لازم ہے کہ اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے درست مسئلہ بتائے اور غلط مسئلہ بتانے کے گناہ سے توبہ کرے۔
چنانچہ بےعلمی کی وجہ سے جھوٹا اور غلط مسئلہ بیان کرنے کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
"مَنِ افْتٰی بِغَیْرِ عِلْمٍ لَعَنَتْہٗ مَلاَئِکَةُ السَّمَاءِ وَالْاَرْضِ”
یعنی جو بغیر علم کے فتوی دے، اس پر آسمان و زمین کے فرشتے لعنت کرتے ہیں۔
(کنز العمال، جلد 10، رقم الحدیث : 29014، بیروت)
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کتبہ : مفتی ابواسیدعبیدرضامدنی