لوگوں کا عقیدہ ہے کہ خدا حاضر و ناظر ہے تو یہ درست ہے یا نہیں؟
سوال: (1) ہم لوگوں کا عقیدہ ہے کہ خدا حاضر و ناظر ہے تو یہ درست ہے یا نہیں؟ اور کیا یہ عقیدہ رکھنے والا اسلام سے
خارج ہو جاتا ہے؟
(2) جب لوگ ایک جگہ بیٹھ کر بات چیت کرتے ہیں تو ان کے درمیان خدا موجود ہوتا ہے یہ کہنا چاہیے یا نہیں؟
الجوابـــــــــــــــــــــــــــــــــ
(1) اگر حاضر و ناظر بمعنی شہید اور بصیر اعتقاد رکھتے ہیں یعنی ہر موجود اللہ تعالی کے سامنے ہے اور وہ ہر موجود کو
دیکھتا ہے تو یہ عقیدہ حق ہے ۔ مگر اس عقیدہ کی تعبیر لفظ حاضر و ناظر سے کرنا یعنی اللہ تعالیٰ کے بارے میں حاضر و
ناظر کا لفظ استعمال کرنا نہیں چاہیے ۔
لیکن اگر پھر بھی کوئی شخص اس لفظ کو اللہ تعالی کے بارے میں بولے تو وہ کفر نہ ہوگا جیسا کہ در مختار مع شامی جلد
سوم ص 307 میں ہے ‘‘ یا حاضر یا ناظر لیس بکفر وھو اعلم ”
(2) جب لوگ ایک جگہ بیٹھ کر بات چیت کرتے ہیں تو ان کے درمیان خدا موجود ہوتا ہے یہ نہیں کہنا چاہیے ، اس لیے کہ اللہ
تعالی جگہ اور مکان سے پاک ہے ۔ عقائد نسفی میں ہے " لا یتمکن فی مکان ” اس کے تحت شرح عقائد نسفی میں ص
23 پر ہے ” اذالم یکن فی مکان لم یکن گی جھۃ لا علو ولا سفل ولا غیرھما ”
اور وہ جو پارہ 28 رکوع 2 میں ہے ” ما یکون من نجوی ثلثۃ الا ھو رابعھم” تو اس آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی
انہیں مشاہدہ فرماتا ہے اور ان کے رازوں کو جانتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے درمیان خدا تعالی موجود ہوتا ہے ۔
تفسیر جلالین میں ہے” ھو رابعھم بعلمہ " اور علامہ صاوی نے فرمایا ” قولہ بعلمہ ای بسمعہ و بصرہ ومتعلق بہھم
قدرتہ و ارادتہ”
اور تفسیر مدارک میں اس کے تحت ہے "یعلم ما یتناجون بہ ولا یخفی علیہ وقد تعالی عن الامکان علوا کبیرا ۔
وھو تعالی اعلم
کتبــــــــــــــــــہ : مفتی جلال الدین احمد الامجدی